سنن النسائي - حدیث 2941

الْمَوَاقِيتِ كَيْفَ يُقَبَّلُ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ حَنْظَلَةَ قَالَ رَأَيْتُ طَاوُسًا يَمُرُّ بِالرُّكْنِ فَإِنْ وَجَدَ عَلَيْهِ زِحَامًا مَرَّ وَلَمْ يُزَاحِمْ وَإِنْ رَآهُ خَالِيًا قَبَّلَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ إِنَّكَ حَجَرٌ لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2941

کتاب: مواقیت کا بیان حجر اسود کو کس طرح بوسہ دیا جائے؟ حضرت حنظلہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت طاؤس کو حجر اسود کے پاس سے گزرتے دیکھا۔ اگر آپ وہاں بھیڑ محسوس فرماتے تو (اشارہ کر کے) گزر جاتے اور بھیڑ نہ کرتے۔ اگر جگہ خالی دیکھتے تو اسے تین بار بوسہ دیتے، پھر فرمایا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (اے حجر اسود!) بلا شبہ تو ایک پتھر ہے۔ نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
تشریح : (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا ضروری نہیں۔ اگر بھیڑ ہو تو دھکم پیل کی بجائے اشارہ کر کے گزر جائے۔ اگر آسانی سے بوسہ دے سکے تو بوسہ دے دے۔ یہ حج یا طواف کا رکن نہیں، لہٰذا بوسہ کے لیے مار دھاڑ کرنا یا دھکم پیل کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان گناہوں کی معافی کی بجائے گناہوں کی گٹھڑی اٹھا کر رخصت ہو۔ (۲) یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دفعہ بوسہ دینا مسنون ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: ۲۹۳۹ کا فائدہ نمبر:۱۔ (۳) ’’تو ایک پتھر ہے‘‘ باوجود جنت میں سے ہونے کے بہر صورت ہے تو پتھر ہی، معبود نہیں۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تمام بت توڑ کر ایک بت باقی رکھ لیا۔ عوام الناس یا نو مسلم حضرات ایسا گمان کر سکتے تھے۔ (۴) ’’نفع دے سکتا ہے نہ نقصان‘‘ حدیث میں ہے کہ حجر اسود قیامت کے روز آئے گا۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس جس نے بھی اسے حق کے ساتھ چھوا ہوگا اس کے حق میں گواہی دے گا۔ دیکھیے: (مناسک الحج والعمرۃ، للالبانی، ص: ۲۱) یہ بھی تو نفع ہی ہے؟ حالانکہ اس قسم کی گواہی تو دنیا کی ہر چیز دے گی، مثلاً: جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے، وہاں تک ہر جن وانس، حجر وشجر اس کے لیے گواہی دیں گے، تو کیا ہر جن وانس شجر وحجر نافع اور ضار بن گیا؟ ہرگز نہیں! یہ گواہی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔ اس کا نفع نقصان سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو صرف گواہی دیں گے۔ نفع ونقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ورنہ یہ چیزیں گواہی دینے ہی پر کیوں اکتفا کرتیں؟ بلکہ نفع نقصان دیتیں۔ (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا ضروری نہیں۔ اگر بھیڑ ہو تو دھکم پیل کی بجائے اشارہ کر کے گزر جائے۔ اگر آسانی سے بوسہ دے سکے تو بوسہ دے دے۔ یہ حج یا طواف کا رکن نہیں، لہٰذا بوسہ کے لیے مار دھاڑ کرنا یا دھکم پیل کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان گناہوں کی معافی کی بجائے گناہوں کی گٹھڑی اٹھا کر رخصت ہو۔ (۲) یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دفعہ بوسہ دینا مسنون ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: ۲۹۳۹ کا فائدہ نمبر:۱۔ (۳) ’’تو ایک پتھر ہے‘‘ باوجود جنت میں سے ہونے کے بہر صورت ہے تو پتھر ہی، معبود نہیں۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تمام بت توڑ کر ایک بت باقی رکھ لیا۔ عوام الناس یا نو مسلم حضرات ایسا گمان کر سکتے تھے۔ (۴) ’’نفع دے سکتا ہے نہ نقصان‘‘ حدیث میں ہے کہ حجر اسود قیامت کے روز آئے گا۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس جس نے بھی اسے حق کے ساتھ چھوا ہوگا اس کے حق میں گواہی دے گا۔ دیکھیے: (مناسک الحج والعمرۃ، للالبانی، ص: ۲۱) یہ بھی تو نفع ہی ہے؟ حالانکہ اس قسم کی گواہی تو دنیا کی ہر چیز دے گی، مثلاً: جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے، وہاں تک ہر جن وانس، حجر وشجر اس کے لیے گواہی دیں گے، تو کیا ہر جن وانس شجر وحجر نافع اور ضار بن گیا؟ ہرگز نہیں! یہ گواہی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔ اس کا نفع نقصان سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو صرف گواہی دیں گے۔ نفع ونقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ورنہ یہ چیزیں گواہی دینے ہی پر کیوں اکتفا کرتیں؟ بلکہ نفع نقصان دیتیں۔