سنن النسائي - حدیث 2927

الْمَوَاقِيتِ إِبَاحَةُ الطَّوَافِ فِي كُلِّ الْأَوْقَاتِ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُنَّ أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّى أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2927

کتاب: مواقیت کا بیان طواف کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ’’اے عبد مناف کی اولاد! تم کسی کو بیت اللہ کے طواف اور نماز سے نہ روکو جس وقت بھی کوئی کرنا چاہے، دن ہو یا رات۔‘‘
تشریح : (۱) عبد مناف کی اولاد سے مراد رسول اللہﷺ کا اپنا خاندانہے۔ ان کے ذمے بیت اللہ کی بہت سی خدمات تھیں۔ انھیں بیت اللہ کا متولی سمجھا جاتا تھا۔ (۲) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بیت اللہ میں طواف اور نماز کے لیے کوئی وقت مکروہ اور ممنوع نہیں۔ طواف کے بارے میں تو اتفاق ہے کہ یہ ہر وقت جائز ہے مگر نماز کے بارے میں اختلاف ہے۔ احناف کا خیال ہے کہ مکروہ اوقات میں بیت اللہ میں بھی نماز منع ہے، مثلاً: صبح کی نماز سے لے کر سورج اونچا آنے تک اور عصر کی نماز سے غروب شمس تک۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے طواف کی دو رکعتوں کو ہر وقت جائز قرار دیا ہے کیونکہ جب طواف ہر وقت جائز ہے تو اس کا تتمہ بھی ہر وقت جائز ہوگا۔ اور یہ معقول استدلال ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ طواف کی طرح نماز بھی ہر وقت جائز ہے۔ یہ اجازت صرف طواف کی رکعتوں کے بارے میں نہیں بلکہ مطلقاً نفل نماز کے بارے میں ہے۔ (۳) معلوم ہوا بیت اللہ کو کسی وقت بند نہیں کیا جا سکتا۔ نماز اور طواف کے لیے ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔ عام مساجد میں بھی یہی ہونا چاہیے بشرطیکہ کسی نقصان وغیرہ کا خطرہ نہ ہو، ورنہ مجبوراً تالا لگایا جا سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قیمتی چیزیں یا فالتو اشیاء اندر والے حصے میں ہوں تاکہ ضرورت کے وقت صرف اسے بند کرنا پڑے۔ ایک بیرونی حصہ نماز کے لیے ہر وقت کھلا رہے۔ مساجد اللہ کے گھر ہی رہنے چاہئیں نہ کہ لوگوں کے گھروں کی طرح مقفل، تاکہ نمازی کسی بھی وقت فرض یا نفل پڑھ سکیں، البتہ بیت اللہ کعبہ کو تالا لگایا جائے گا کیونکہ اس کے اندر عموماً نہ نماز پڑھی جاتی ہے اور نہ طواف کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ باہر ہوتا ہے۔ (۱) عبد مناف کی اولاد سے مراد رسول اللہﷺ کا اپنا خاندانہے۔ ان کے ذمے بیت اللہ کی بہت سی خدمات تھیں۔ انھیں بیت اللہ کا متولی سمجھا جاتا تھا۔ (۲) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بیت اللہ میں طواف اور نماز کے لیے کوئی وقت مکروہ اور ممنوع نہیں۔ طواف کے بارے میں تو اتفاق ہے کہ یہ ہر وقت جائز ہے مگر نماز کے بارے میں اختلاف ہے۔ احناف کا خیال ہے کہ مکروہ اوقات میں بیت اللہ میں بھی نماز منع ہے، مثلاً: صبح کی نماز سے لے کر سورج اونچا آنے تک اور عصر کی نماز سے غروب شمس تک۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے طواف کی دو رکعتوں کو ہر وقت جائز قرار دیا ہے کیونکہ جب طواف ہر وقت جائز ہے تو اس کا تتمہ بھی ہر وقت جائز ہوگا۔ اور یہ معقول استدلال ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ طواف کی طرح نماز بھی ہر وقت جائز ہے۔ یہ اجازت صرف طواف کی رکعتوں کے بارے میں نہیں بلکہ مطلقاً نفل نماز کے بارے میں ہے۔ (۳) معلوم ہوا بیت اللہ کو کسی وقت بند نہیں کیا جا سکتا۔ نماز اور طواف کے لیے ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔ عام مساجد میں بھی یہی ہونا چاہیے بشرطیکہ کسی نقصان وغیرہ کا خطرہ نہ ہو، ورنہ مجبوراً تالا لگایا جا سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قیمتی چیزیں یا فالتو اشیاء اندر والے حصے میں ہوں تاکہ ضرورت کے وقت صرف اسے بند کرنا پڑے۔ ایک بیرونی حصہ نماز کے لیے ہر وقت کھلا رہے۔ مساجد اللہ کے گھر ہی رہنے چاہئیں نہ کہ لوگوں کے گھروں کی طرح مقفل، تاکہ نمازی کسی بھی وقت فرض یا نفل پڑھ سکیں، البتہ بیت اللہ کعبہ کو تالا لگایا جائے گا کیونکہ اس کے اندر عموماً نہ نماز پڑھی جاتی ہے اور نہ طواف کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ باہر ہوتا ہے۔