سنن النسائي - حدیث 2918

الْمَوَاقِيتِ وَضْعُ الصَّدْرِ وَالْوَجْهِ عَلَى مَا اسْتُقْبِلَ مِنْ دُبُرِ الْكَعْبَةِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فَجَلَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَكَبَّرَ وَهَلَّلَ ثُمَّ مَالَ إِلَى مَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ الْبَيْتِ فَوَضَعَ صَدْرَهُ عَلَيْهِ وَخَدَّهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَهَلَّلَ وَدَعَا فَعَلَ ذَلِكَ بِالْأَرْكَانِ كُلِّهَا ثُمَّ خَرَجَ فَأَقْبَلَ عَلَى الْقِبْلَةِ وَهُوَ عَلَى الْبَابِ فَقَالَ هَذِهِ الْقِبْلَةُ هَذِهِ الْقِبْلَةُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2918

کتاب: مواقیت کا بیان کعبے کے دروازے کے سامنے والی دیوار کے ساتھ چہرہ اور سینہ لگانا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ بیت اللہ کے اندر داخل ہوا۔ آپ بیٹھ گئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور تکبیر و تہلیل کرتے رہے، پھر آپ اپنے سامنے والی کعبے کی دیوار کی طرف جھکے، اپنا سینہ، رخسار اور ہاتھ اس پر لگائے، پھر تکبیر اور تہلیل کرتے رہے۔ دعا مانگتے رہے اور یہ کام آپ نے تمام کونوں میں کیا، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ ابھی دروازے پر تھے کہ قبلے کی طرف منہ کیا اور فرمایا: ’’یہ قبلہ ہے، یہ قبلہ ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’تکبیر‘‘ اللہ اکبر کہنا ’’تہلیل‘‘ لا الہ الا اللہ کہنا اور ’’تسبیح‘‘ سبحان اللہ کہنا ہے۔ (۲) ’’تمام کونوں میں کیا‘‘ معلوم ہوا بیت اللہ کے کسی بھی کونے اور دیوار کے ساتھ چہرہ، سینہ، ہاتھ وغیرہ لگائے جا سکتے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ احادیث میں حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کونے کو چھونے کا ذکر نہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان دو کے علاوہ کسی کونے یا دیوار کو چھونا منع ہے۔ خصوصاً جبکہ رسول اللہﷺ سے ملتزم اور بیت اللہ کے اندر دیوار کونوں کو چھونا بلکہ چمٹا تک ثابت ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دو کونوں کے علاوہ (نیز ملتزم کے علاوہ) کسی کونے یا دیوار کو چھونا سنت نہیں، لیکن اس سے جواز کی نفی نہیں ہوتی جیسے رات کو گیارہ رکعت مسنون ہیں مگر اس سے کم و بیش جائز ہیں، منع نہیں جبکہ انھیں سنت نہ سمجھا جائے، بہت سے حضرات ایسے مقامات پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سنت نہیں تو جائز بھی نہیں، مگر یہ بات غلط ہے۔ (۱) ’’تکبیر‘‘ اللہ اکبر کہنا ’’تہلیل‘‘ لا الہ الا اللہ کہنا اور ’’تسبیح‘‘ سبحان اللہ کہنا ہے۔ (۲) ’’تمام کونوں میں کیا‘‘ معلوم ہوا بیت اللہ کے کسی بھی کونے اور دیوار کے ساتھ چہرہ، سینہ، ہاتھ وغیرہ لگائے جا سکتے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ احادیث میں حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کونے کو چھونے کا ذکر نہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان دو کے علاوہ کسی کونے یا دیوار کو چھونا منع ہے۔ خصوصاً جبکہ رسول اللہﷺ سے ملتزم اور بیت اللہ کے اندر دیوار کونوں کو چھونا بلکہ چمٹا تک ثابت ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دو کونوں کے علاوہ (نیز ملتزم کے علاوہ) کسی کونے یا دیوار کو چھونا سنت نہیں، لیکن اس سے جواز کی نفی نہیں ہوتی جیسے رات کو گیارہ رکعت مسنون ہیں مگر اس سے کم و بیش جائز ہیں، منع نہیں جبکہ انھیں سنت نہ سمجھا جائے، بہت سے حضرات ایسے مقامات پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سنت نہیں تو جائز بھی نہیں، مگر یہ بات غلط ہے۔