الْمَوَاقِيتِ دُخُولُ الْبَيْتِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الْكَعْبَةِ وَقَدْ دَخَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِلَالٌ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَجَافَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْبَابَ فَمَكَثُوا فِيهَا مَلِيًّا ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبْتُ الدَّرَجَةَ وَدَخَلْتُ الْبَيْتَ فَقُلْتُ أَيْنَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا هَا هُنَا وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُمْ كَمْ صَلَّى فِي الْبَيْتِ
کتاب: مواقیت کا بیان
بیت اللہ کے اندر داخل ہونے کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کعبہ مشرفہ کے پاس پہنچے تو نبیﷺ، بلال اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیت اللہ کے اندر تشریف لے جا چکے تھے اور عثمان بن طلحہ (کعبے کے حاجب) نے (داخل ہو کر) دروازہ بند کر دیا تھا۔وہ کچھ دیر تک اندر رہے، پھر (عثمان بن طلحہ حاجب نے) دروازہ کھولا تو نبیﷺ باہر تشریف لائے۔ میں سیڑھی پر چڑھ کر بیت اللہ میں داخل ہوگیا اور میں نے پوچھا: نبیﷺ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا: یہاں، البتہ میں ان سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ نبیﷺ نے بیت اللہ میں کتنی رکعات پڑھی ہیں۔
تشریح :
(۱) یہ فتح مکہ کی بات ہے۔ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بیت اللہ کے چابی بردار تھے، اس لیے انھیں بھی نبیﷺ ساتھ لے گئے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ آپ نے انھیں معزول نہیں فرمایا۔ اسامہ بن زید اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے خادم تھے۔ (۳) ’’یہاں‘‘ آئندہ حدیث میں وضاحت ہے کہ اگلی صف کے ستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔ دائیں طرف دو ستون تھے اور بائیں طرف ایک اور پیچھے تین ستون تھے۔ اس وقت کعبے کی چھت چھ ستونوں پر قائم تھی۔ آج کل ستون نہیں ہیں،البتہ آپ کی نماز والی جگہ نشان زدہ ہے جو دروازے کے عین سامنے ہے۔ (۳) ’’بھول گیا‘‘ حالانکہ آئندہ روایت میں تعداد کا بھی ذکر ہے۔ شاید ابن عمر رضی اللہ عنہ بعد میں بھول گئے ہوں یا پہلے بھول گئے ہوں اور بعد میں یاد آیا ہو۔ واللہ اعلم
(۱) یہ فتح مکہ کی بات ہے۔ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بیت اللہ کے چابی بردار تھے، اس لیے انھیں بھی نبیﷺ ساتھ لے گئے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ آپ نے انھیں معزول نہیں فرمایا۔ اسامہ بن زید اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے خادم تھے۔ (۳) ’’یہاں‘‘ آئندہ حدیث میں وضاحت ہے کہ اگلی صف کے ستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔ دائیں طرف دو ستون تھے اور بائیں طرف ایک اور پیچھے تین ستون تھے۔ اس وقت کعبے کی چھت چھ ستونوں پر قائم تھی۔ آج کل ستون نہیں ہیں،البتہ آپ کی نماز والی جگہ نشان زدہ ہے جو دروازے کے عین سامنے ہے۔ (۳) ’’بھول گیا‘‘ حالانکہ آئندہ روایت میں تعداد کا بھی ذکر ہے۔ شاید ابن عمر رضی اللہ عنہ بعد میں بھول گئے ہوں یا پہلے بھول گئے ہوں اور بعد میں یاد آیا ہو۔ واللہ اعلم