سنن النسائي - حدیث 2904

الْمَوَاقِيتِ بِنَاءُ الْكَعْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ فَبَنَيْتُهُ عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام وَجَعَلْتُ لَهُ خَلْفًا فَإِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا بَنَتْ الْبَيْتَ اسْتَقْصَرَتْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2904

کتاب: مواقیت کا بیان تعمیر کعبہ کا بیان حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر تیری قوم (قریش) کا دور کفر تازہ نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو توڑ کر اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر تعمیر کر دیتا اور اس کا ایک دروازہ پچھلی جانب بنا دیتا کیونکہ قریش نے جب بیت اللہ تعمیر کیا تو انھوں نے اس کی عمارت کو چھوٹا کر دیا تھا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’دروازہ پچھلی جانب‘‘ تاکہ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکلتے رہیں اور رش نہ ہو۔ نبیﷺ کی یہ خواہش بھی تھی کہ بیت اللہ کا دروازہ نیچے زمین کے برابر لگا دیا جائے۔ تاکہ سیڑھی کی ضرورت نہ رہیمگر شاید یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ عوام الناس بیت اللہ میں داخل ہوں، لہٰذا آپ کی ان خواہشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ورنہ کعبہ کی بے احترامی اور شور وغل کا شدید خطرہ تھا۔ جو شخص کعبے میں داخل ہونے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے حطیم والا کھلا حصہ موجود ہے وہاں وہ اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے، جبکہ بیت اللہ کے مقفل ہونے کی وجہ سے اس کا رعب واحترام اور دبدبہ قائم ودائم ہے۔ رسول اللہﷺ کی قبر کو مقفل رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا احترام قائم رہے، شور وغل سے بچت رہے۔ علاوہ ازیں عوام، جن کی اکثریت فسادِ عقیدہ میں مبتلا ہے، مشرکانہ اعمال سے بھی محفوظ رہے۔ باقی رہا صلاۃ وسلام کا مسئلہ، اس کے لیے اندر جانا ضروری نہیں، باہر سے بھی ممکن ہے بلکہ دنیا کے بعید ترین گوشے سے بھی سلام وصلاۃ بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ اسے پہنچانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور وہی آپ کو صلاۃ وسلام پہنچاتے ہیں، آپ خود کہیں سے بھی نہیںسنتے، قریب سے، نہ بعید سے۔ (۱) ’’دروازہ پچھلی جانب‘‘ تاکہ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکلتے رہیں اور رش نہ ہو۔ نبیﷺ کی یہ خواہش بھی تھی کہ بیت اللہ کا دروازہ نیچے زمین کے برابر لگا دیا جائے۔ تاکہ سیڑھی کی ضرورت نہ رہیمگر شاید یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ عوام الناس بیت اللہ میں داخل ہوں، لہٰذا آپ کی ان خواہشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ورنہ کعبہ کی بے احترامی اور شور وغل کا شدید خطرہ تھا۔ جو شخص کعبے میں داخل ہونے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے حطیم والا کھلا حصہ موجود ہے وہاں وہ اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے، جبکہ بیت اللہ کے مقفل ہونے کی وجہ سے اس کا رعب واحترام اور دبدبہ قائم ودائم ہے۔ رسول اللہﷺ کی قبر کو مقفل رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا احترام قائم رہے، شور وغل سے بچت رہے۔ علاوہ ازیں عوام، جن کی اکثریت فسادِ عقیدہ میں مبتلا ہے، مشرکانہ اعمال سے بھی محفوظ رہے۔ باقی رہا صلاۃ وسلام کا مسئلہ، اس کے لیے اندر جانا ضروری نہیں، باہر سے بھی ممکن ہے بلکہ دنیا کے بعید ترین گوشے سے بھی سلام وصلاۃ بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ اسے پہنچانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور وہی آپ کو صلاۃ وسلام پہنچاتے ہیں، آپ خود کہیں سے بھی نہیںسنتے، قریب سے، نہ بعید سے۔