سنن النسائي - حدیث 2896

الْمَوَاقِيتِ اسْتِقْبَالُ الْحَاجٌّ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجُويَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَابْنُ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَقُولُ خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَأْوِيلِهِ ضَرَبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ قَالَ عُمَرُ يَا ابْنَ رَوَاحَةَ فِي حَرَمِ اللَّهِ وَبَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلِّ عَنْهُ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَلَامُهُ أَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ وَقْعِ النَّبْلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2896

کتاب: مواقیت کا بیان حاجیوں کا استقبال کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے: ’’اے کافروں کی اولاد! آپ کا راستہ چھوڑ دو۔ آج ہم آپ کے حکم پر تمھیں ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو جگری دوست سے غافل کر دے گی۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اے ابن رواحہ! تم اللہ تعالیٰ کے حرم میں اور رسول اللہﷺ کی موجودگی میں یہ اشعار کہتے ہو؟ تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’عمر! رہنے دو۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کا کلام ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘‘
تشریح : (۱) یہ حدیث اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر ۲۸۷۶۔ (۲) امام نسائی رحمہ اللہ شاید اس حدیث کو استقبال کے باب میں اس لیے لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا آپ کے آگے آگے چلنا اور اشعار پڑھنا استقبال ہی کی ایک صورت ہے۔ یا ممکن ہے مکے کے لوگ آپ کے استقبال کو آئے ہوں جیسا کہ اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ (۳) ’’آپ کا راستہ چھوڑ دو‘‘ ویسے آپ تو اس وقت عمرے کی نیت سے گئے تھے۔ گویا استقبال کے لحاظ سے حج اور عمرہ برابر ہیں۔ (۱) یہ حدیث اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر ۲۸۷۶۔ (۲) امام نسائی رحمہ اللہ شاید اس حدیث کو استقبال کے باب میں اس لیے لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا آپ کے آگے آگے چلنا اور اشعار پڑھنا استقبال ہی کی ایک صورت ہے۔ یا ممکن ہے مکے کے لوگ آپ کے استقبال کو آئے ہوں جیسا کہ اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ (۳) ’’آپ کا راستہ چھوڑ دو‘‘ ویسے آپ تو اس وقت عمرے کی نیت سے گئے تھے۔ گویا استقبال کے لحاظ سے حج اور عمرہ برابر ہیں۔