سنن النسائي - حدیث 2879

الْمَوَاقِيتِ تَحْرِيمُ الْقِتَالِ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضُدَ بِهَا شَجَرًا فَإِنْ تَرَخَّصَ أَحَدٌ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2879

کتاب: مواقیت کا بیان مکہ مکرمہ میں لڑائی حرام ہے حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ نے (گورنر مدینہ عمرو بن سعید سے کہا، جب وہ مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! مجھے اجازت دو کہ میں تمھارے سامنے وہ بات بیان کروں جو رسول اللہﷺ نے فتح مکہ سے اگلے دن ارشاد فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ بات سنی، میرے دل نے یاد رکھی اور میری آنکھوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا جب آپ وہ بات فرما رہے تھے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی، پھر فرمایا: ’’مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے لوگوں نے نہیں۔ جو آدمی اللہ تعالیٰ اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ وہاں خونریزی کرے، اور نہ وہاں کے کسی درخت کو کاٹے۔ اگر کوئی شخص رسول اللہﷺ کی لڑائی کو حجت بنا کر خود رخصت حاصل کرے تو اسے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، تمھیں اجازت نہیں دی ہے۔ اور مجھے بھی اس (فتح والے) دن میں تھوڑی دیر کے لیے اجازت دی گئی تھی۔ اب پھر یہ اسی طرح حرام ہوگیا ہے جس طرح اس سے پہلے تھا۔ ہر حاضر، غائب کو یہ باتیں پہنچا دے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’عمرو بن سعید‘‘ یہ یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی بلکہ مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ چلے گئے تھے تاکہ حکومت جبر نہ کر سکے۔ یزید نے عمرو بن سعید کو حضرت عبداللہ بن ز بیر رضی اللہ عنہ کے خلاف کارروائی کے لیے لکھا تھا۔ یہ ۶۱ یا ۶۳ ہجری کی بات ہے۔ (۲)’’لوگوں نے نہیں‘‘ بعض اوقات لوگ بھی تو اپنے طور پر ہی کسی علاقے کی حرمت کے قائل ہو جاتے ہیں جیسے آج کل عوام الناس بعض پیروں کی گدیوں اور ان سے ملحقہ علاقوں کو حرم کی طرح سمجھتے ہیں اور کسی قسم کے تصرف کو گناہ سمجھتے ہیں، اسی لیے نفی فرمائی کہ مکہ مکرمہ کی حرمت منجانب اللہ ہے، اس میں لوگوں کا کوئی دخل نہیں، نیز یہ حرمت ازلی وابدی ہے، کسی ایک ملت یا شریعت کے ساتھ خاص نہیں۔ (۳) ’’تھوڑی دیر کے لیے‘‘ حملے کے آغاز سے لے کر تسلط قائم ہونے تک۔ اور یہ وقت طلوع شمس سے عصر تک تھا۔ اس میں بھی رسول اللہﷺ کے لشکر نے از خود کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ جس نے مزاحمت کی، وہی قتل ہوا۔ یا ان چند مجرموں کو قتل کیا گیا جنھوں نے ناقابل معافی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اور یہ شرعی حکم تھا۔ (۴) ’’ہر حاضر، غائب کو پہنچا دے‘‘ تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ نبی اکرمﷺ نے حرم کی حرمت کو قائم رکھا ہے۔ (۵) حلال وحرام کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی بشر کو اس میں دخل نہیں۔ رسولوں کا کام بھی احکام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اپنی طرف سے چیز حلال وحرام کرنے کا اختیار انھیں بھی نہیں ہے۔ (۶) امراء کے شریعت کے خلاف دیے گئے اوامر کا انکار اور حق بات کی تبلیغ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔ (۱) ’’عمرو بن سعید‘‘ یہ یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی بلکہ مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ چلے گئے تھے تاکہ حکومت جبر نہ کر سکے۔ یزید نے عمرو بن سعید کو حضرت عبداللہ بن ز بیر رضی اللہ عنہ کے خلاف کارروائی کے لیے لکھا تھا۔ یہ ۶۱ یا ۶۳ ہجری کی بات ہے۔ (۲)’’لوگوں نے نہیں‘‘ بعض اوقات لوگ بھی تو اپنے طور پر ہی کسی علاقے کی حرمت کے قائل ہو جاتے ہیں جیسے آج کل عوام الناس بعض پیروں کی گدیوں اور ان سے ملحقہ علاقوں کو حرم کی طرح سمجھتے ہیں اور کسی قسم کے تصرف کو گناہ سمجھتے ہیں، اسی لیے نفی فرمائی کہ مکہ مکرمہ کی حرمت منجانب اللہ ہے، اس میں لوگوں کا کوئی دخل نہیں، نیز یہ حرمت ازلی وابدی ہے، کسی ایک ملت یا شریعت کے ساتھ خاص نہیں۔ (۳) ’’تھوڑی دیر کے لیے‘‘ حملے کے آغاز سے لے کر تسلط قائم ہونے تک۔ اور یہ وقت طلوع شمس سے عصر تک تھا۔ اس میں بھی رسول اللہﷺ کے لشکر نے از خود کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ جس نے مزاحمت کی، وہی قتل ہوا۔ یا ان چند مجرموں کو قتل کیا گیا جنھوں نے ناقابل معافی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اور یہ شرعی حکم تھا۔ (۴) ’’ہر حاضر، غائب کو پہنچا دے‘‘ تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ نبی اکرمﷺ نے حرم کی حرمت کو قائم رکھا ہے۔ (۵) حلال وحرام کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی بشر کو اس میں دخل نہیں۔ رسولوں کا کام بھی احکام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اپنی طرف سے چیز حلال وحرام کرنے کا اختیار انھیں بھی نہیں ہے۔ (۶) امراء کے شریعت کے خلاف دیے گئے اوامر کا انکار اور حق بات کی تبلیغ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔