سنن النسائي - حدیث 2876

الْمَوَاقِيتِ إِنْشَادُ الشِّعْرِ فِي الْحَرَمِ وَالْمَشْيُ بَيْنَ يَدَيْ الْإِمَامِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي حَرَمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ تَقُولُ الشِّعْرَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلِّ عَنْهُ فَلَهُوَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2876

کتاب: مواقیت کا بیان حرم میں شعر پڑھنا اور امام کے آگے آگے چلنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ عمرہ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے: ’’اے کافروں کی اولاد! آپ کا راستہ چھوڑ دو۔ آج ہم آپ کے حکم سے تمھاری گردنیں ماریں گے اور ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو دوست سے غافل کر دے گی۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ابن رواحہ! رسول اللہﷺ کے سامنے اور حرم پاک میں شعر کہتے ہو؟ تونبیﷺ نے فرمایا: ’’عمر! پڑھنے دو۔ یہ شعر ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔‘‘
تشریح : (۱) ’’عمرۃ القضائ‘‘ یہ ۷ ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔ (۲) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ (۳) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔ (۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ (۱) ’’عمرۃ القضائ‘‘ یہ ۷ ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔ (۲) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ (۳) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔ (۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔