سنن النسائي - حدیث 2860

الْمَوَاقِيتِ النَّهْيُ عَنْ أَنْ يُخَمَّرَ وَجْهُ الْمُحْرِمِ وَرَأْسُهُ إِذَا مَاتَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابْنَ خَلِيفَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ لَفَظَهُ بَعِيرُهُ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغَسَّلُ وَيُكَفَّنُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا يُغَطَّى رَأْسُهُ وَوَجْهُهُ فَإِنَّهُ يَقُومُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2860

کتاب: مواقیت کا بیان محرم فوت ہو جائے تو اس کے چہرے اور سر کو ڈھانپنے کی ممانعت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کر رہا تھا۔ اسے اس کے اونٹ نے گرا دیا اور وہ مر گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’۔اسے غسل دیا جائے، دو کپڑوں میں کفن دیا جائے اور اس کے سر اور چہرے کو نہ ڈھانپا جائے کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔‘‘
تشریح : یہ حدیث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۲۸۱۴۔ صحابہ میں سے حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اسی بات کے قائل ہیں۔ فقہاء میں سے امام شافعی، امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا مسلک بھی یہی ہے مگر امام مالک، امام ابوحنیفہ اور اوزاعی رحمہم اللہ اس حدیث کے قائل نہیں کیونکہ ان کے نزدیک موت کے ساتھ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، لہٰذا احرام بھی ختم ہوگیا، مگر صریح فرمان کے مقابلے میں قیاس درست نہیں۔ شارع علیہ السلام کو تخصیص کا حق حاصل ہے۔ بہت سی عام ایسی آیات و احادیث ہیں جن کی تخصیص رسول اللہﷺ نے فرمائی اور ان بزرگوں نے قبول فرمائی تو یہاں تخصیص پر اعتراض کیوں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ} (الحشر۵۹: ۷) ’’رسول تمھیں جو دے، وہ لے لو۔‘‘ یہ حدیث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۲۸۱۴۔ صحابہ میں سے حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اسی بات کے قائل ہیں۔ فقہاء میں سے امام شافعی، امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا مسلک بھی یہی ہے مگر امام مالک، امام ابوحنیفہ اور اوزاعی رحمہم اللہ اس حدیث کے قائل نہیں کیونکہ ان کے نزدیک موت کے ساتھ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، لہٰذا احرام بھی ختم ہوگیا، مگر صریح فرمان کے مقابلے میں قیاس درست نہیں۔ شارع علیہ السلام کو تخصیص کا حق حاصل ہے۔ بہت سی عام ایسی آیات و احادیث ہیں جن کی تخصیص رسول اللہﷺ نے فرمائی اور ان بزرگوں نے قبول فرمائی تو یہاں تخصیص پر اعتراض کیوں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ} (الحشر۵۹: ۷) ’’رسول تمھیں جو دے، وہ لے لو۔‘‘