سنن النسائي - حدیث 2845

الْمَوَاقِيتِ النَّهْيُ عَنْ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ وَلَا يَخْطُبُ وَلَا يُنْكِحُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2845

کتاب: مواقیت کا بیان (محرم کو)نکاح سے ممانعت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ نکاح کا پیغام بھیجے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔‘‘
تشریح : یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: ۱۴۰۹) لہٰذا قطعاً صحیح ہے، نیز صریح قولی روایت ہے جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ اس کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا جمہور اہل حدیث وفقہاء نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، نیز ہم رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ظاہر کے مطابق صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ فعلی روایت ہے اور فعل میں کئی احتمالات ہو سکتے ہیں۔ فعل نبیﷺ کا خاصہ بھی ہو سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ غلط فہمی کا امکان بھی فعل میں زیادہ ہے بجائے قولی روایت کے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تاویل بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث: ۲۸۴۰ کے فائدے میں وضاحت ہے۔ احناف نے اس مقام میں جمہور اہل علم کے خلاف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور یہ تاویل کی ہے کہ نہی والی حدیث میں نکاح سے مراد جماع ہے مگر بعد والے الفاظ کے معنی کیا ہوں گے: ’’نہ نکاح کا پیغام بھیجے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔‘‘ کیا یہاں نکاح کے معنی جماع ہو سکتے ہیں اور کیسے؟ بینوا توجروا، تاویل تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی چاہیے تاکہ سب احادیث پر عمل ہو سکے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، حدیث: ۲۸۴۰) یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: ۱۴۰۹) لہٰذا قطعاً صحیح ہے، نیز صریح قولی روایت ہے جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ اس کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا جمہور اہل حدیث وفقہاء نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، نیز ہم رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ظاہر کے مطابق صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ فعلی روایت ہے اور فعل میں کئی احتمالات ہو سکتے ہیں۔ فعل نبیﷺ کا خاصہ بھی ہو سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ غلط فہمی کا امکان بھی فعل میں زیادہ ہے بجائے قولی روایت کے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تاویل بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث: ۲۸۴۰ کے فائدے میں وضاحت ہے۔ احناف نے اس مقام میں جمہور اہل علم کے خلاف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور یہ تاویل کی ہے کہ نہی والی حدیث میں نکاح سے مراد جماع ہے مگر بعد والے الفاظ کے معنی کیا ہوں گے: ’’نہ نکاح کا پیغام بھیجے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔‘‘ کیا یہاں نکاح کے معنی جماع ہو سکتے ہیں اور کیسے؟ بینوا توجروا، تاویل تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی چاہیے تاکہ سب احادیث پر عمل ہو سکے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، حدیث: ۲۸۴۰)