سنن النسائي - حدیث 2840

الْمَوَاقِيتِ الرُّخْصَةُ فِي النِّكَاحِ لِلْمُحْرِمِ شاذ أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَاءِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2840

کتاب: مواقیت کا بیان محرم کے لیے نکاح کی رخصت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے حضرت میمونہؓ سے احرام کی حالت میں شادی کی۔
تشریح : اس روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ محرم نکاح کر سکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ روایت سنداً بالکل صحیح ہے مگر اس کا مضمون دوسری صحیح احادیث کے خلاف ہے، (دیکھیے، روایت: ۲۸۴۵) (اسی لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان تمام روایات کو، جن میں حالت احرام میں نکاح کرنے کا بیان ہے، شاذ قرار دیا ہے۔) نیز حضرت میمونہؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے نکاح حلال حالت میں کیا ہے۔ نکاح کے سفیر حضرت رافع رضی اللہ عنہ کا لہٰذا معلوم یوں ہوتا ہے کہ انھیں غلط فہمی ہوگئی، نیز منع والی روایت (۲۸۴۵) قولی ہے، یہ فعلی۔ قولی اور فعلی کے تعارض کے وقت قولی راجح ہوتی ہے۔ اسی طرح نہی اور اباحت میں تعارض ہو تو نہی کو ترجیح ہوتی ہے، نیز فعلی روایات تو متعارض ہیں۔ قولی صریح ہے اور اس کے مقابل کوئی قولی روایت نہیں، لہٰذا قولی روایت پر عمل ہوگا۔ تاویل کر لی جائے تاکہ یہ محتمل روایت دوسری صریح روایات کے مطابق ہو جائے، مثلاً: ’’محرم‘‘ کے معنی ’’حرم میں‘‘ یا ’’حرمت والے مہینوں میں‘‘ کیے جائیں، یعنی نبیﷺ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح حرم میں یا حرمت کے مہینے میں کیا۔ عربی زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عقلاً بھی نکاح احرام کے منافی ہے۔ اگر خوشبو لگانا، حجامت بنوانا، زینت والے کپڑے پہننا اور شکار وغیرہ کرنا احرام کے خلاف ہیں تو نکاح جو ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر ہے، کیونکر احرام میں درست ہو سکتا ہے؟ اس روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ محرم نکاح کر سکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ روایت سنداً بالکل صحیح ہے مگر اس کا مضمون دوسری صحیح احادیث کے خلاف ہے، (دیکھیے، روایت: ۲۸۴۵) (اسی لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان تمام روایات کو، جن میں حالت احرام میں نکاح کرنے کا بیان ہے، شاذ قرار دیا ہے۔) نیز حضرت میمونہؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے نکاح حلال حالت میں کیا ہے۔ نکاح کے سفیر حضرت رافع رضی اللہ عنہ کا لہٰذا معلوم یوں ہوتا ہے کہ انھیں غلط فہمی ہوگئی، نیز منع والی روایت (۲۸۴۵) قولی ہے، یہ فعلی۔ قولی اور فعلی کے تعارض کے وقت قولی راجح ہوتی ہے۔ اسی طرح نہی اور اباحت میں تعارض ہو تو نہی کو ترجیح ہوتی ہے، نیز فعلی روایات تو متعارض ہیں۔ قولی صریح ہے اور اس کے مقابل کوئی قولی روایت نہیں، لہٰذا قولی روایت پر عمل ہوگا۔ تاویل کر لی جائے تاکہ یہ محتمل روایت دوسری صریح روایات کے مطابق ہو جائے، مثلاً: ’’محرم‘‘ کے معنی ’’حرم میں‘‘ یا ’’حرمت والے مہینوں میں‘‘ کیے جائیں، یعنی نبیﷺ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح حرم میں یا حرمت کے مہینے میں کیا۔ عربی زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عقلاً بھی نکاح احرام کے منافی ہے۔ اگر خوشبو لگانا، حجامت بنوانا، زینت والے کپڑے پہننا اور شکار وغیرہ کرنا احرام کے خلاف ہیں تو نکاح جو ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر ہے، کیونکر احرام میں درست ہو سکتا ہے؟