سنن النسائي - حدیث 2827

الْمَوَاقِيتِ إِذَا ضَحِكَ الْمُحْرِمُ فَفَطِنَ الْحَلَالُ لِلصَّيْدِ فَقَتَلَهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ انْطَلَقَ أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِي ضَحِكَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَنَظَرْتُ فَإِذَا حِمَارُ وَحْشٍ فَطَعَنْتُهُ فَاسْتَعَنْتُهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ فَطَلَبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرَفِّعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقُلْتُ أَيْنَ تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَرَكْتُهُ وَهُوَ قَائِلٌ بِالسُّقْيَا فَلَحِقْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَصْحَابَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ وَإِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ فَانْتَظِرْهُمْ فَانْتَظَرَهُمْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ وَعِنْدِي مِنْهُ فَقَالَ لِلْقَوْمِ كُلُوا وَهُمْ مُحْرِمُونَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2827

کتاب: مواقیت کا بیان اگر محرم (شکار دیکھ کر) ہنس پڑے جس سے حلال شخص کو شکار کا پتہ چل جائے ‘پھر وہ اسے شکار کرے تو کیا محرم اسے کھا سکتا ہے؟ حضرت عبداللہ بن ابو قتادہ نے کہا کہ میرے والد رسول اللہﷺ کے ساتھ حدیبیہ والے سال گئے۔ ان کے ساتھیوں نے احرام باندھ رکھا تھا مگر انھوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ (وہ کہتے ہیں کہ) میں ایک دفعہ اپنے ساتھیوں کے پاس بیٹھا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں نے (ادھر ادھر) دیکھا تو مجھے ایک جنگلی گدھا نظر آیا۔ میں نے نیزے سے اس پروار کیا (اور اسے شکار کر لیا، اس سے پہلے) میں نے ان سے (شکار کے سلسلے میں) مدد طلب کی تھی تو انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (کیونکہ وہ محرم تھے) پھر ہم نے اس شکار کا گوشت کھایا۔ ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ ہمیں دشمن کہیں رسول اللہﷺ سے منقطع نہ کر دے۔ میں اپنے گھوڑے کو تیز بھگاتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پیچھے (انھیں مطلع کرنے کے لیے) چلا۔ کبھی میں گھوڑے کو تیز بھگاتا تھا۔ اور کبھی آہستہ چلاتا تھا۔ (راستے میں) میں آدھی رات کو بنو غفار کے ایک آدمی کو ملا۔ میں نے اس سے پوچھا: تم نے رسول اللہﷺ کو کہاں چھوڑا ہے؟ اس نے کہا: میں آپ کے پاس سے چلا تو آپ سقیا مقام پر قیلولہ فرما رہے تھے۔ میں آپ کو جا ملا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ آپ کے صحابہ آپ کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ (سلام و دعا) عرض کرتے ہیں۔ انھیں خطرہ ہے کہ کہیں دشمن (ان پر حملہ کر کے) انھیں آپ سے منقطع نہ کر دے، اس لیے آپ رک کر ان کا انتظار فرمائیں۔ آپ نے ان کا انتظار فرمایا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا ہے اور میرے پاس اس کا کچھ گوشت باقی ہے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: ’’کھاؤ۔‘‘ حالانکہ وہ محرم تھے۔
تشریح : (۱) اگر محرم شکاری کے ساتھ کوئی تعاون نہ کرے اور اسے مطلع کرنے کے لیے نہ ہنسے بلکہ اتفاقاً شکار دیکھ کر ہنس پڑے اور اس سے شکاری کو اندازہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا شکار جو حلال آدمی نے کیا ہو، محرم بھی کھا سکتے ہیں بشرطیکہ شکاری نے خاص ان کے لیے شکار نہ کیا ہو۔ (۲) روایت تفصیلاً گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے حدیث: ۲۸۱۸۔ (۳) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے احرام نہ باندھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس وقت تک مواقیت مقرر نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت حرم شروع ہونے سے پہلے پہلے کہیں سے بھی احرام باندھا جا سکتا تھا۔ میقات حجۃ الوداع میں مقرر ہوئے، مگر یہ وجہ اتنی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ وجہ تو سب کے لیے برابر تھی جبکہ دوسروں نے احرام باندھ رکھا تھا۔ لازماً کوئی اور وجہ تھی جس کا ذکر ہو چکا۔ واللہ اعلم (۱) اگر محرم شکاری کے ساتھ کوئی تعاون نہ کرے اور اسے مطلع کرنے کے لیے نہ ہنسے بلکہ اتفاقاً شکار دیکھ کر ہنس پڑے اور اس سے شکاری کو اندازہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا شکار جو حلال آدمی نے کیا ہو، محرم بھی کھا سکتے ہیں بشرطیکہ شکاری نے خاص ان کے لیے شکار نہ کیا ہو۔ (۲) روایت تفصیلاً گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے حدیث: ۲۸۱۸۔ (۳) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے احرام نہ باندھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس وقت تک مواقیت مقرر نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت حرم شروع ہونے سے پہلے پہلے کہیں سے بھی احرام باندھا جا سکتا تھا۔ میقات حجۃ الوداع میں مقرر ہوئے، مگر یہ وجہ اتنی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ وجہ تو سب کے لیے برابر تھی جبکہ دوسروں نے احرام باندھ رکھا تھا۔ لازماً کوئی اور وجہ تھی جس کا ذکر ہو چکا۔ واللہ اعلم