سنن النسائي - حدیث 2817

الْمَوَاقِيتِ إِبَاحَةُ فَسْخِ الْحَجِّ بِعُمْرَةٍ لِمَنْ لَمْ يَسُقِ الْهَدْيَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَاهَا فَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ فَقَدْ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2817

کتاب: مواقیت کا بیان جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ’۔یہ عمرہ ہے۔ ہم نے (حج کے ساتھ) اس کا فائدہ اٹھایا ہے، لہٰذا جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہیں، وہ مکمل طور پر حلال ہو جائے، اور سن لو کہ عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’لہٰذا‘‘ یعنی عمرہ کرنے کی وجہ سے ہمارا حج تمتع بن گیا ہے، لہٰذا عمرے اور حج کے درمیان حلال ہونا چاہیے تاکہ عمرے کی اپنی جداگانہ حیثیت واضح ہو، البتہ شرط یہ ہے کہ ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو۔ (۲) ’’عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘ اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں: * حج کے دنوں میں عمرہ کیا جا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں۔ * حج اور عمرہ اکٹھے ہوگئے، لہٰذا حج کا احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو سکتا ہے۔ * عمرے کے افعال الگ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حج اور عمرہ اکٹھے (قران کی صورت میں) ادا ہو رہے ہیں تو صرف حج کے افعال کافی ہیں۔ صرف نیت میں عمرہ ہوگا۔ افعال حج ہی کے ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ *عمرہ حج میں داخل ہے، لہٰذا حج فرض ہونے کے بعد عمرہ ضروری نہیں رہا۔ حج ہی سے کفایت ہو جائے گی۔ ان چاروں معانی میں سے پہلے معنی متفق علیہ ہیں۔ دوسرے معنی صرف امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک، تیسرے معنی امام شافعی کے نزدیک اور چوتھے معنی صرف احناف کے نزدیک معتبر ہیں۔ واللہ اعلم (۱) ’’لہٰذا‘‘ یعنی عمرہ کرنے کی وجہ سے ہمارا حج تمتع بن گیا ہے، لہٰذا عمرے اور حج کے درمیان حلال ہونا چاہیے تاکہ عمرے کی اپنی جداگانہ حیثیت واضح ہو، البتہ شرط یہ ہے کہ ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو۔ (۲) ’’عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘ اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں: * حج کے دنوں میں عمرہ کیا جا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں۔ * حج اور عمرہ اکٹھے ہوگئے، لہٰذا حج کا احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو سکتا ہے۔ * عمرے کے افعال الگ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حج اور عمرہ اکٹھے (قران کی صورت میں) ادا ہو رہے ہیں تو صرف حج کے افعال کافی ہیں۔ صرف نیت میں عمرہ ہوگا۔ افعال حج ہی کے ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ *عمرہ حج میں داخل ہے، لہٰذا حج فرض ہونے کے بعد عمرہ ضروری نہیں رہا۔ حج ہی سے کفایت ہو جائے گی۔ ان چاروں معانی میں سے پہلے معنی متفق علیہ ہیں۔ دوسرے معنی صرف امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک، تیسرے معنی امام شافعی کے نزدیک اور چوتھے معنی صرف احناف کے نزدیک معتبر ہیں۔ واللہ اعلم