سنن النسائي - حدیث 2816

الْمَوَاقِيتِ إِبَاحَةُ فَسْخِ الْحَجِّ بِعُمْرَةٍ لِمَنْ لَمْ يَسُقِ الْهَدْيَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُسْلِمٍ وَهُوَ الْقُرِّيُّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ وَأَهَلَّ أَصْحَابُهُ بِالْحَجِّ وَأَمَرَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ الْهَدْيُ أَنْ يَحِلَّ وَكَانَ فِيمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ الْهَدْيُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَأَحَلَّا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2816

کتاب: مواقیت کا بیان جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عمرے کا احرام باندھا اور آپ کے صحابہ نے حج کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ (عمرہ کر کے) حلال ہو جائیں گے۔ اور جن کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے ان میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور ایک اور شخص شامل تھے، لہٰذا وہ دونوں حلال ہوگئے۔
تشریح : (۱) ‘‘عمرے کا احرام باندھا‘‘ یہ الفاظ کثیر روایات کے خلاف ہیں جن میں آپ کے حج کے احرام کا ذکر ہے، اس لیے ان الفاظ کا وہی مفہوم مراد لیا جائے گا جو دیگر روایات کے مخالف نہ ہو کہ آپ نے عمرے کو حج کے احرام میں داخل فرما لیا اور دونوں کو ایک احرام سے ادا فرمایا۔ (۲) ’’وہ دونوں حلال ہوگئے‘‘ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہی دو اشخاص تھے جن کے پاس جانور نہیں تھے، لہٰذا صرف یہ دونوں حلال ہوئے، لیکن صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ قربانی ساتھ لے جانے والے چند افراد تھے۔ اکثر صحابہ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے بلکہ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تو قربانی ک جانور ساتھ لائے تھے اور وہ حلال نہیں ہوئے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الحج، حدیث: ۱۶۵۱) اور یہی بات صحیح ہے۔ اس روایت میں وہم ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۴/ ۳۴۹- ۳۵۰) (۱) ‘‘عمرے کا احرام باندھا‘‘ یہ الفاظ کثیر روایات کے خلاف ہیں جن میں آپ کے حج کے احرام کا ذکر ہے، اس لیے ان الفاظ کا وہی مفہوم مراد لیا جائے گا جو دیگر روایات کے مخالف نہ ہو کہ آپ نے عمرے کو حج کے احرام میں داخل فرما لیا اور دونوں کو ایک احرام سے ادا فرمایا۔ (۲) ’’وہ دونوں حلال ہوگئے‘‘ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہی دو اشخاص تھے جن کے پاس جانور نہیں تھے، لہٰذا صرف یہ دونوں حلال ہوئے، لیکن صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ قربانی ساتھ لے جانے والے چند افراد تھے۔ اکثر صحابہ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے بلکہ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تو قربانی ک جانور ساتھ لائے تھے اور وہ حلال نہیں ہوئے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الحج، حدیث: ۱۶۵۱) اور یہی بات صحیح ہے۔ اس روایت میں وہم ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۴/ ۳۴۹- ۳۵۰)