سنن النسائي - حدیث 2815

الْمَوَاقِيتِ إِبَاحَةُ فَسْخِ الْحَجِّ بِعُمْرَةٍ لِمَنْ لَمْ يَسُقِ الْهَدْيَ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ وُهَيْبِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانُوا يُرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرَ وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ وَعَفَا الْوَبَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ أَوْ قَالَ دَخَلَ صَفَرْ فَقَدْ حَلَّتْ الْعُمْرَةُ لِمَنْ اعْتَمَرْ فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحِلِّ قَالَ الْحِلُّ كُلُّهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2815

کتاب: مواقیت کا بیان جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ وہ محرم کو صفر بنا لیا کرتے تھے اور کہتے تھے: جب اونٹوں کی پشت پر لگنے والے زخم ٹھیک ہو جائیں اور خوب اون اگ آئے اور صفر (محرم) گزر جائے، یا انھوں نے کہا: صفر کا مہینہ شروع ہو جائے تو پھر عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہوتا ہے۔ نبیﷺ (حجۃ الوداع میں) اور آپ کے صحابہ چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کی لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا لیں۔ یہ چیز ان کے نزدیک بڑی شاق تھی۔ (کہ وہ حلال ہو جائیں) تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس قسم کی حلت؟ آپ نے فرمایا: ’’پوری حلت۔‘‘
تشریح : (۱) ’’سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ ان کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں صرف حج ہی کرنا چاہیے۔ عمرے کے لیے بعد میں الگ سے سفر کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ چونکہ اس میں دور سے آنے والے لوگوں کے لیے تنگی تھی، لہٰذا شریعت نے دور سے آنے والوں کے لیے حج سے پہلے عمرے کی اجازت دے دی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اب بھی بہتر یہی ہے کہ حج کے دنوں میں حج ہی کیا جائے۔ عمرہ حج کے علاوہ باقی دنوں میں کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ ویسے ان کے نزدیک تمتع بھی جائز ہے، البتہ افضل نہیں۔ (۲) حج کے مہینوں سے مراد ہیں: شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے پہلے ۹ دن کیونکہ ان دنوں میں حج کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ بعض نے پورا ذوالحجہ بھی مراد لیا ہے کیونکہ اس کا نام ہی حج کا مہینہ ہے، لہٰذا ان کے نزدیک عمرہ ذوالحجہ کے بعد ہی ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو جیسے حضرت عائشہؓ کو تھی۔ (۳) ’’محرم کو صفر‘‘ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تین مہینے اکٹھے حرمت کے ہیں۔ جب کفار کو مسلسل تین مہینے حرمت کے گزارنے مشکل ہو جاتے تو وہ محرم کو صفر قرار دے لیتے۔ اپنی تنگی دور کرنے کے بعد صفر کو محرم قرار دے لیتے اور حرمت کی پابندیوں پر عمل کرتے تاکہ گنتی پوری ہو جائے، مگر یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے کہ آپ آپ کو بدلنے کے بجائے شریعت کا حکم بدل دیا جائے۔ اسی لیے قران مجید نے اس کے بارے میں برے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں: {اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ} (التوبۃ: ۳۷) عربی میں اس فعل کونسی (تاخیر) کہا جاتا ہے۔ (۴) ’’زخم ٹھیک ہو جائیں۔‘‘ حج کے سفر کے دوران میں پالان لگ لگ کر پیٹھ پر زخم بن جاتے تھے۔ ان کا مطلب تھا کہ جب تک وہ زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے، عمرے کا سفر شروع نہ کیا جائے۔ (۵) ’’اون اگ آئے‘‘ پالانوں کی وجہ سے اون جھڑ جاتی تھی، نیز زخموں والی جگہ بھی اون سے خالی ہو جاتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ دوبارہ اچھی طرح اون اگ آئے، تب عمرے کا سفر شروع کیا جائے۔ (۶) ’’اور صفر گزر جائے‘‘ مراد محرم ہے کیونکہ وہ محرم کو صفر بنا لیتے تھے، لہٰذا دوسرا جملہ ’’یا صفر شروع ہو جائے۔‘‘ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس دوسرے جملے میں صفر سے حقیقی صفر مراد ہے، یعنی محرم گزر جائے اور صفر شروع ہو جائے تو پھر وہ عمرہ کرنے کے قائل تھے۔ (باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔) (۱) ’’سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ ان کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں صرف حج ہی کرنا چاہیے۔ عمرے کے لیے بعد میں الگ سے سفر کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ چونکہ اس میں دور سے آنے والے لوگوں کے لیے تنگی تھی، لہٰذا شریعت نے دور سے آنے والوں کے لیے حج سے پہلے عمرے کی اجازت دے دی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اب بھی بہتر یہی ہے کہ حج کے دنوں میں حج ہی کیا جائے۔ عمرہ حج کے علاوہ باقی دنوں میں کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ ویسے ان کے نزدیک تمتع بھی جائز ہے، البتہ افضل نہیں۔ (۲) حج کے مہینوں سے مراد ہیں: شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے پہلے ۹ دن کیونکہ ان دنوں میں حج کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ بعض نے پورا ذوالحجہ بھی مراد لیا ہے کیونکہ اس کا نام ہی حج کا مہینہ ہے، لہٰذا ان کے نزدیک عمرہ ذوالحجہ کے بعد ہی ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو جیسے حضرت عائشہؓ کو تھی۔ (۳) ’’محرم کو صفر‘‘ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تین مہینے اکٹھے حرمت کے ہیں۔ جب کفار کو مسلسل تین مہینے حرمت کے گزارنے مشکل ہو جاتے تو وہ محرم کو صفر قرار دے لیتے۔ اپنی تنگی دور کرنے کے بعد صفر کو محرم قرار دے لیتے اور حرمت کی پابندیوں پر عمل کرتے تاکہ گنتی پوری ہو جائے، مگر یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے کہ آپ آپ کو بدلنے کے بجائے شریعت کا حکم بدل دیا جائے۔ اسی لیے قران مجید نے اس کے بارے میں برے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں: {اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ} (التوبۃ: ۳۷) عربی میں اس فعل کونسی (تاخیر) کہا جاتا ہے۔ (۴) ’’زخم ٹھیک ہو جائیں۔‘‘ حج کے سفر کے دوران میں پالان لگ لگ کر پیٹھ پر زخم بن جاتے تھے۔ ان کا مطلب تھا کہ جب تک وہ زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے، عمرے کا سفر شروع نہ کیا جائے۔ (۵) ’’اون اگ آئے‘‘ پالانوں کی وجہ سے اون جھڑ جاتی تھی، نیز زخموں والی جگہ بھی اون سے خالی ہو جاتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ دوبارہ اچھی طرح اون اگ آئے، تب عمرے کا سفر شروع کیا جائے۔ (۶) ’’اور صفر گزر جائے‘‘ مراد محرم ہے کیونکہ وہ محرم کو صفر بنا لیتے تھے، لہٰذا دوسرا جملہ ’’یا صفر شروع ہو جائے۔‘‘ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس دوسرے جملے میں صفر سے حقیقی صفر مراد ہے، یعنی محرم گزر جائے اور صفر شروع ہو جائے تو پھر وہ عمرہ کرنے کے قائل تھے۔ (باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔)