الْمَوَاقِيتِ إِبَاحَةُ فَسْخِ الْحَجِّ بِعُمْرَةٍ لِمَنْ لَمْ يَسُقِ الْهَدْيَ صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ فَأَحْلَلْنَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ قَالَ أَوَ مَا كُنْتِ طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ قُلْتُ لَا قَالَ فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ ثُمَّ مَوْعِدُكِ مَكَانُ كَذَا وَكَذَا
کتاب: مواقیت کا بیان
جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع میں مدینہ منورہ سے) رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا (اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی)۔ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کو جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، حکم دیا کہ وہ حلال ہو جائیں۔ تو جو شخص قربانی ساتھ نہیں لائے تھے، وہ حلال ہوگئے۔ آپ کی بیویاں بھی قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائی تھیں، وہ بھی حلال ہوگئیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: مجھے تو حیض آنے لگا تھا، لہٰذا میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی تھی۔ جب محصب والی رات (چودھویں) ہوئی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ حج اور عمرہ کر کے (اپنے گھروں کو) جائیں گے اور میں صرف حج کر کے جاؤں گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب ہم مکہ مکرمہ آئے تھے تو تم نے ان راتوں میں طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی (حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ تنعیم کے مقام پر جاؤ اور عمرے کا احرام باندھو، پھر (عمرے کی ادائیگی کے بعد) ہمیں فلاں مقام پر آملنا۔‘‘
تشریح :
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۷۶۴، ۲۷۶۵۔ باقی رہا باب والا مسئلہ کہ کیا ہر حج کے احرام والا جس کے ساتھ قربانی نہ ہو، عمرہ کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ حلال ہو سکتا ہے، یہی بات درست ہے۔ امام احمد اور اہل ظاہر اسے اب بھی جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض محققین کے نزدیک احرام حج والا مکہ میں آئے تو لازماً اس کے حج کا احرام عمرے میں بدل جائے گا اور اسے حلال ہونا ہی پڑے گا، وہ چاہے یا نہ چاہے۔ تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں اس کی صریح اجازت ہے اور خطاب بھی عام ہے۔
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۷۶۴، ۲۷۶۵۔ باقی رہا باب والا مسئلہ کہ کیا ہر حج کے احرام والا جس کے ساتھ قربانی نہ ہو، عمرہ کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ حلال ہو سکتا ہے، یہی بات درست ہے۔ امام احمد اور اہل ظاہر اسے اب بھی جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض محققین کے نزدیک احرام حج والا مکہ میں آئے تو لازماً اس کے حج کا احرام عمرے میں بدل جائے گا اور اسے حلال ہونا ہی پڑے گا، وہ چاہے یا نہ چاہے۔ تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں اس کی صریح اجازت ہے اور خطاب بھی عام ہے۔