الْمَوَاقِيتِ رُكُوبُ الْبَدَنَةِ بِالْمَعْرُوفِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَسْأَلُ عَنْ رُكُوبِ الْبَدَنَةِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ارْكَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا
کتاب: مواقیت کا بیان
قربانی کے جانور پر اچھے طریقے سے سوار ہونا چاہیے
حضرت ابو زبیر بیان کرتے ہیں کہ میرے سامنے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے بارے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ’’اس پر اچھے طریقے سے سواری کر، جب تجھے ضرورت پیش آئے حتیٰ کہ تجھے سواری مل جائے۔‘‘
تشریح :
آخری الفا: ’’حتی کہ تجھے سواری مل جائے۔‘‘ سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ضرورت سے مراد سواری کا نہ ہونا ہے، نہ کہ چلنے سے بالکل عاجز آجانا، لہٰذا سواری نہ ہو، سفر لمبا ہو تو قربانی کے جانور پر سوار ہو سکتا ہے، البتہ سواری کرتے وقت بھی اس کا احترام قائم رکھے، یعنی اسے نہ بھگائے، نہ مارے، نہ سب وشتم کرے بلکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلنے دے۔ جب وہ تھک جائے تو آرام کرنے دے۔ چارے وغیرہ کا بھی خیال رکھے۔
آخری الفا: ’’حتی کہ تجھے سواری مل جائے۔‘‘ سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ضرورت سے مراد سواری کا نہ ہونا ہے، نہ کہ چلنے سے بالکل عاجز آجانا، لہٰذا سواری نہ ہو، سفر لمبا ہو تو قربانی کے جانور پر سوار ہو سکتا ہے، البتہ سواری کرتے وقت بھی اس کا احترام قائم رکھے، یعنی اسے نہ بھگائے، نہ مارے، نہ سب وشتم کرے بلکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلنے دے۔ جب وہ تھک جائے تو آرام کرنے دے۔ چارے وغیرہ کا بھی خیال رکھے۔