سنن النسائي - حدیث 2801

الْمَوَاقِيتِ رُكُوبُ الْبَدَنَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً قَالَ ارْكَبْهَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا وَيْلَكَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2801

کتاب: مواقیت کا بیان قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے اونٹ کو ہانک کر لے جا رہا تھا (اور خود پیچھے پیدل چل رہا تھا۔) آپ نے فرمایا: ’’اس پر سوار ہو جا۔‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’سوار ہو جا تجھ پر افسوس!‘‘ یہ آپ نے دوسری یا تیسری دفعہ فرمایا۔
تشریح : (۱) اصل تو یہی ہے کہ قربانی کا اونٹ آگے آگے خالی جائے۔ اس پر بوجھ لدا ہوا ہو نہ اس پر سواری کی جا رہی ہو۔ یہ اس کے احترام کا تقاضا ہے جیسے رسول اللہﷺ کی سواری کی اونٹنی اور تھی، قربانی کے اونٹ الگ تھے۔ مگر ممکن ہے کوئی شخض تنگ دست ہو۔ اس کے پاس ایک ہی اونٹ ہو جسے وہ قربانی کے طور پر ذبح کرنا چاہتا ہے۔ سواری کے لیے کوئی الگ اونٹ میسر نہیں۔ فاصلہ بعید ہے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ اس پر سوار ہو جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تنگی میں ڈالنا چاہتا۔ حدیث: ۲۸۰۴ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ احناف قربانی کے جانور پر سوار ہونے کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ شخص چلنے سے عاجز آچکا ہو اور چل نہ سکتا ہو۔ اگر چل سکتا ہو تو پھر وہ سوار نہیں ہو سکتا۔ مگر احادیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص چل رہا تھا بلکہ آپ کے مجبور کرنے پر سوار ہوا۔ وہ سوار نہ ہونا چاہتا تھا۔ (۲) پہلی دفعہ فرمانے پر وہ اس لیے سوار نہ ہوا کہ شاید رسول اللہﷺ کو علم نہ ہو کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ دوبارہ پھر وہ سوار نہ ہوا کہ ابھی متردد تھا، پھر جب آپ نے سختی سے فرمایا اور اس کو بھی کوئی اشکال باقی نہ رہا تو پھر وہ سوار ہوا۔ (۳) ’’تجھ پر افسوس!‘‘ ظاہراً تو یہ بددعا ہے مگر عرف عام میں یہ کلمہ ترحم وشفقت ہے۔ آپ کا مقصود بھی بددعا دینا نہ تھا۔ (۴) ’’دوسری یا تیسری دفعہ‘‘ آئندہ حدیث میں ’’چوتھی دفعہ‘‘ کا ذکر بھی ہے۔ (۵) جس طرح مجبوراً سوار ہونا جائز ہے، اسی طرح اس پر سامان سفر بھی لادا جا سکتا ہے۔ (۱) اصل تو یہی ہے کہ قربانی کا اونٹ آگے آگے خالی جائے۔ اس پر بوجھ لدا ہوا ہو نہ اس پر سواری کی جا رہی ہو۔ یہ اس کے احترام کا تقاضا ہے جیسے رسول اللہﷺ کی سواری کی اونٹنی اور تھی، قربانی کے اونٹ الگ تھے۔ مگر ممکن ہے کوئی شخض تنگ دست ہو۔ اس کے پاس ایک ہی اونٹ ہو جسے وہ قربانی کے طور پر ذبح کرنا چاہتا ہے۔ سواری کے لیے کوئی الگ اونٹ میسر نہیں۔ فاصلہ بعید ہے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ اس پر سوار ہو جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تنگی میں ڈالنا چاہتا۔ حدیث: ۲۸۰۴ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ احناف قربانی کے جانور پر سوار ہونے کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ شخص چلنے سے عاجز آچکا ہو اور چل نہ سکتا ہو۔ اگر چل سکتا ہو تو پھر وہ سوار نہیں ہو سکتا۔ مگر احادیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص چل رہا تھا بلکہ آپ کے مجبور کرنے پر سوار ہوا۔ وہ سوار نہ ہونا چاہتا تھا۔ (۲) پہلی دفعہ فرمانے پر وہ اس لیے سوار نہ ہوا کہ شاید رسول اللہﷺ کو علم نہ ہو کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ دوبارہ پھر وہ سوار نہ ہوا کہ ابھی متردد تھا، پھر جب آپ نے سختی سے فرمایا اور اس کو بھی کوئی اشکال باقی نہ رہا تو پھر وہ سوار ہوا۔ (۳) ’’تجھ پر افسوس!‘‘ ظاہراً تو یہ بددعا ہے مگر عرف عام میں یہ کلمہ ترحم وشفقت ہے۔ آپ کا مقصود بھی بددعا دینا نہ تھا۔ (۴) ’’دوسری یا تیسری دفعہ‘‘ آئندہ حدیث میں ’’چوتھی دفعہ‘‘ کا ذکر بھی ہے۔ (۵) جس طرح مجبوراً سوار ہونا جائز ہے، اسی طرح اس پر سامان سفر بھی لادا جا سکتا ہے۔