سنن النسائي - حدیث 2773

الْمَوَاقِيتِ إِشْعَارُ الْهَدْيِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح وَأَنْبَأَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ مُخْتَصَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2773

کتاب: مواقیت کا بیان قربانی کے اونٹ کو اشعار کرنا حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ کے وقت ایک ہزار اور چند سو صحابہ کے ساتھ (مدینہ منورہ سے) نکلے، حتیٰ کہ جب وہ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو آپ نے قربانی کے اونٹوں کو قلادے ڈالے اور اشعار کیا اور عمرے کا احرام باندھا، یہ روایت مختصر ہے۔
تشریح : (۱) ’’ایک ہزار اور چند سو‘‘ دیگر روایات کی تصریح کے مطابق ان کی تعداد ۱۴۰۰ تھی، بعض حضرات نے ۱۵۰۰ بھی کہی ہے۔ پہلی بات زیادہ معتبر ہے۔ (۲) ’’قلادے ڈالے‘‘ قلادہ ان جانوروں کو پہنایا جاتا تھا جنھیں حرم میں ذبح ہونے کے لیے بھیجا جاتا تھا تاکہ یہ نشانی بن جائے اور کوئی شخض ان کی توہین نہ کرے یا ان پر زیادتی نہ کرے۔ قلادہ ایک سادہ سا ’’ہار‘‘ ہوتا تھا۔ کسی رسی میں جوتے کا ٹکڑا، درخت کا چھلکا یا ایسی ہی کوئی سادہ چیز ڈال کر جانور کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔ کوئی فخریہ نشانی نہیں ہوتی تھی، لہٰذا یہ سادگی قائم رہنی چاہیے۔ (۳) ’’اشعار کیا‘‘ یہ بھی قربانی کے اونٹوں کی نشانی ہوتی تھی۔ اونٹوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو نہیں کیا جاتا تھا۔ اشعار یہ ہے کہ اونٹ کی کوہان کی دائیں جانب نیزے یا برچھے کے ساتھ ہلکا سا زخم کیا جاتا تھا اور نکلنے والے خون کو وہیں مل دیا جاتا تھا۔ اس سے پتہ چل جاتا تھا کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ اگر گم ہو جائے تو دوسرے لوگ خود ہی حاجیوں کو پہنچا دیں۔ کوئی چور وغیرہ اسے نہ چرائے اور اگر بالفرض اسے راستے میں ذبح کرنا پڑے تو صرف فقیر ہی اسے کھائیں، وغیرہ۔ یہ کام قلادہ سے بھی چل سکتا تھا مگر چونکہ قلادہ گلے سے اتر سکتا ہے، ٹوٹ سکتا ہے وغیرہ، لہٰذا ایسا نشان لگایا گیا جو زائل نہ ہو سکے۔ (۴) اشعار سنت ہے۔ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام بلا کھٹکے کرتے رہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اشعار کو بدعت کہا۔ ان کے بقول یہ مثلہ ہے اور جانور کو بلا وجہ تکلیف دینا ہے، لہٰذا نہیں کرنا چاہیے، مگر حیرانی ہے کہ اس بات کا علم رسول اللہﷺ کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو اور نہ دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کو جبکہ یہ بدیہی باتیں ہیں۔ امام صاحب کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کے آپﷺ کے دور میں کفار جانوروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور جب تک انھیں اشعار نہ کیا جاتا، وہ انھیں قربانی کے جانور نہیں سمجھتے تھے اور لوٹنے سے باز نہیں آتے تھے، لہٰذا آپ نے مجبوراً ایسا کیا۔ یہ بات صرف عمرۂ حدیبیہ کی حد تک چل سکتی ہے۔ حجۃ الوداع میں تو پورا علاقہ اسلامی حکومت کے ماتحت آچکا تھا، پھر بعد میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں تو حکومت عرب سے باہر نکل کر عجم کے وسیع علاقوں تک محیط ہو چکی تھی۔ اس وقت اشعار کس کے ڈر سے ہوگا؟ بہرحال امام صاحب کا قول درست نہیں۔ اسی وجہ سے ان کے شاگردان رشید بھی اس مسئلے میں ان کے ساتھ متفق نہیں۔ (۵) اشعار چونکہ کوہان پر کیا جاتا ہے اور یہ چربی والی جگہ ہے، لہٰذا یہ زخم اونٹ کو محسوس نہیں ہوتا۔ جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ زیادہ خون بھی نہیں بہتا۔ اونٹ جیسے عظیم الجثہ جانور کے لیے یہ زخم نہ ہونے کے برابر ہے۔ (۱) ’’ایک ہزار اور چند سو‘‘ دیگر روایات کی تصریح کے مطابق ان کی تعداد ۱۴۰۰ تھی، بعض حضرات نے ۱۵۰۰ بھی کہی ہے۔ پہلی بات زیادہ معتبر ہے۔ (۲) ’’قلادے ڈالے‘‘ قلادہ ان جانوروں کو پہنایا جاتا تھا جنھیں حرم میں ذبح ہونے کے لیے بھیجا جاتا تھا تاکہ یہ نشانی بن جائے اور کوئی شخض ان کی توہین نہ کرے یا ان پر زیادتی نہ کرے۔ قلادہ ایک سادہ سا ’’ہار‘‘ ہوتا تھا۔ کسی رسی میں جوتے کا ٹکڑا، درخت کا چھلکا یا ایسی ہی کوئی سادہ چیز ڈال کر جانور کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔ کوئی فخریہ نشانی نہیں ہوتی تھی، لہٰذا یہ سادگی قائم رہنی چاہیے۔ (۳) ’’اشعار کیا‘‘ یہ بھی قربانی کے اونٹوں کی نشانی ہوتی تھی۔ اونٹوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو نہیں کیا جاتا تھا۔ اشعار یہ ہے کہ اونٹ کی کوہان کی دائیں جانب نیزے یا برچھے کے ساتھ ہلکا سا زخم کیا جاتا تھا اور نکلنے والے خون کو وہیں مل دیا جاتا تھا۔ اس سے پتہ چل جاتا تھا کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ اگر گم ہو جائے تو دوسرے لوگ خود ہی حاجیوں کو پہنچا دیں۔ کوئی چور وغیرہ اسے نہ چرائے اور اگر بالفرض اسے راستے میں ذبح کرنا پڑے تو صرف فقیر ہی اسے کھائیں، وغیرہ۔ یہ کام قلادہ سے بھی چل سکتا تھا مگر چونکہ قلادہ گلے سے اتر سکتا ہے، ٹوٹ سکتا ہے وغیرہ، لہٰذا ایسا نشان لگایا گیا جو زائل نہ ہو سکے۔ (۴) اشعار سنت ہے۔ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام بلا کھٹکے کرتے رہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اشعار کو بدعت کہا۔ ان کے بقول یہ مثلہ ہے اور جانور کو بلا وجہ تکلیف دینا ہے، لہٰذا نہیں کرنا چاہیے، مگر حیرانی ہے کہ اس بات کا علم رسول اللہﷺ کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو اور نہ دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کو جبکہ یہ بدیہی باتیں ہیں۔ امام صاحب کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کے آپﷺ کے دور میں کفار جانوروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور جب تک انھیں اشعار نہ کیا جاتا، وہ انھیں قربانی کے جانور نہیں سمجھتے تھے اور لوٹنے سے باز نہیں آتے تھے، لہٰذا آپ نے مجبوراً ایسا کیا۔ یہ بات صرف عمرۂ حدیبیہ کی حد تک چل سکتی ہے۔ حجۃ الوداع میں تو پورا علاقہ اسلامی حکومت کے ماتحت آچکا تھا، پھر بعد میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں تو حکومت عرب سے باہر نکل کر عجم کے وسیع علاقوں تک محیط ہو چکی تھی۔ اس وقت اشعار کس کے ڈر سے ہوگا؟ بہرحال امام صاحب کا قول درست نہیں۔ اسی وجہ سے ان کے شاگردان رشید بھی اس مسئلے میں ان کے ساتھ متفق نہیں۔ (۵) اشعار چونکہ کوہان پر کیا جاتا ہے اور یہ چربی والی جگہ ہے، لہٰذا یہ زخم اونٹ کو محسوس نہیں ہوتا۔ جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ زیادہ خون بھی نہیں بہتا۔ اونٹ جیسے عظیم الجثہ جانور کے لیے یہ زخم نہ ہونے کے برابر ہے۔