سنن النسائي - حدیث 2771

الْمَوَاقِيتِ مَا يَفْعَلُ مَنْ حُبِسَ عَنِ الْحَجِّ وَلَمْ يَكُنِ اشْتَرَطَ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ يُنْكِرُ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُ مَا حَسْبُكُمْ سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَمْ يَشْتَرِطْ فَإِنْ حَبَسَ أَحَدَكُمْ حَابِسٌ فَلْيَأْتِ الْبَيْتَ فَلْيَطُفْ بِهِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ لِيَحْلِقْ أَوْ يُقَصِّرْ ثُمَّ لِيُحْلِلْ وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2771

کتاب: مواقیت کا بیان جس شخص نے شرط نہیں لگائی ‘وہ حج سے روک دیا جائے تو کیا کرے؟ حضرت سالم اپنے والد (ابن عمر) کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ وہ حج کے احرام میں شرط لگانے کا انکار کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: کیا تمھیں تمہارے نبیﷺ کی سنتی کافی نہیں؟ کہ آپ نے شرط نہیں لگائی۔ اگر تم میں سے کسی کو کوئی رکاوٹپیش آجائے تو (جب موقع ملے) بیت اللہ آئے، اس کا طواف کرے، صفا مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر سر منڈوائے یا بال کٹوا لے، پھر حلال ہو جائے اور اس پر آئندہ سال حج ہوگا۔
تشریح : ’’آپ نے شرط نہیں لگائی‘‘ شاید ان کا اشارہ عمرۂ حدیبیہ کی طرف ہے کہ وہاں دشمن کی طرف سے رکاوٹ کا خطرہ تھا مگر آپ نے شرط نہیں لگائی جبکہ حضرت ضباعہؓ والی حدیث بعد کی ہے جس میں آپ نے شرط لگانے کا حکم دیا، دونوں پر عمل چاہیے جو شرط لگائے وہ شرط والی روایت پر عمل کرے اور جو شرط نہ لگائے وہ حضرت ابن عمر والی روایت پر عمل کرے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے دونوں باب قائم فرما کر اسی طرح اشارہ فرمایا ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ دونوں الگ الگ حالتوں میں قابل عمل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ کسی صحیح یا قابل عمل حدیث کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سابقہ حدیث اور حدیث: ۲۷۶۶) ’’آپ نے شرط نہیں لگائی‘‘ شاید ان کا اشارہ عمرۂ حدیبیہ کی طرف ہے کہ وہاں دشمن کی طرف سے رکاوٹ کا خطرہ تھا مگر آپ نے شرط نہیں لگائی جبکہ حضرت ضباعہؓ والی حدیث بعد کی ہے جس میں آپ نے شرط لگانے کا حکم دیا، دونوں پر عمل چاہیے جو شرط لگائے وہ شرط والی روایت پر عمل کرے اور جو شرط نہ لگائے وہ حضرت ابن عمر والی روایت پر عمل کرے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے دونوں باب قائم فرما کر اسی طرح اشارہ فرمایا ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ دونوں الگ الگ حالتوں میں قابل عمل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ کسی صحیح یا قابل عمل حدیث کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سابقہ حدیث اور حدیث: ۲۷۶۶)