سنن النسائي - حدیث 2770

الْمَوَاقِيتِ مَا يَفْعَلُ مَنْ حُبِسَ عَنِ الْحَجِّ وَلَمْ يَكُنِ اشْتَرَطَ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُنْكِرُ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُ أَلَيْسَ حَسْبُكُمْ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ حُبِسَ أَحَدُكُمْ عَنْ الْحَجِّ طَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى يَحُجَّ عَامًا قَابِلًا وَيُهْدِي وَيَصُومُ إِنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2770

کتاب: مواقیت کا بیان جس شخص نے شرط نہیں لگائی ‘وہ حج سے روک دیا جائے تو کیا کرے؟ حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ (والد محترم) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ احرام حج میں شرط لگانے کا انکار فرماتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمھیں رسول اللہﷺ کی سنت کافی نہیں؟ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روک دیا جائے تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر وہ ہر چیز سے (جو احرام میں ممنوع تھی) حلال ہو جائے حتیٰ کہ آئندہ سال حج کرے اور جانور بوھی ذبح کرے۔ اور اگر جانور نہ پائے تو روزے رکھے۔
تشریح : (۱) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ضباعہؓ کی حدیث سے واقف نہ ہوں گے ورنہ جس نبی اکرمﷺ کی سنت وہ بتلا رہے ہیں اسی نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ’’شرط لگا۔‘‘ جس طرح نبیﷺ کی سنت کافی ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان بھی چون وچرا کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور شرط والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں مذکور ہے۔ اس کی متابعات بھی ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں، لہٰذا شرط لگانا بلا شبہ صحیح ہے۔ (۲) ’’بیت اللہ کا طواف کرے‘‘ بشرطیکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے، حضرت ضباعہ والی روایت میں تو عجز کی صورت ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں تو جہاں عجز طاری ہو وہیں حلال ہونا (احرام کھولنا) پڑے گا، البتہ اگر وہ فرض حج کا احرام تھا تو آئندہ سال دوبارہ حج کرنا ہوگا، اگر وہ طاقت پائے ورنہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ میں راستے ہی میں حلال ہوگئے تھے۔ اور کہیں ذکر نہیں کہ آپ نے ان صحابہ کو قضا کا حکم دیا ہو۔ (۱) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ضباعہؓ کی حدیث سے واقف نہ ہوں گے ورنہ جس نبی اکرمﷺ کی سنت وہ بتلا رہے ہیں اسی نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ’’شرط لگا۔‘‘ جس طرح نبیﷺ کی سنت کافی ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان بھی چون وچرا کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور شرط والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں مذکور ہے۔ اس کی متابعات بھی ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں، لہٰذا شرط لگانا بلا شبہ صحیح ہے۔ (۲) ’’بیت اللہ کا طواف کرے‘‘ بشرطیکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے، حضرت ضباعہ والی روایت میں تو عجز کی صورت ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں تو جہاں عجز طاری ہو وہیں حلال ہونا (احرام کھولنا) پڑے گا، البتہ اگر وہ فرض حج کا احرام تھا تو آئندہ سال دوبارہ حج کرنا ہوگا، اگر وہ طاقت پائے ورنہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ میں راستے ہی میں حلال ہوگئے تھے۔ اور کہیں ذکر نہیں کہ آپ نے ان صحابہ کو قضا کا حکم دیا ہو۔