سنن النسائي - حدیث 2764

الْمَوَاقِيتِ فِي الْمُهِلَّةِ بِالْعُمْرَةِ تَحِيضُ وَتَخَافُ فَوْتَ الْحَجِّ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ مُهِلَّةً بِعُمْرَةٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ عَرَكَتْ حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ قَالَ فَقُلْنَا حِلُّ مَاذَا قَالَ الْحِلُّ كُلُّهُ فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ فَوَجَدَهَا تَبْكِي فَقَالَ مَا شَأْنُكِ فَقَالَتْ شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أُحْلِلْ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ فَقَالَ إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاغْتَسِلِي ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتْ الْمَوَاقِفَ حَتَّى إِذَا طَهُرَتْ طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ قَالَ قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجَّتِكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ قَالَ فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنْ التَّنْعِيمِ وَذَلِكَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2764

کتاب: مواقیت کا بیان عورت نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہو‘ اسے حیض شروع ہو جائے اور (انتظار کی صورت میں)حج فوت ہونے کا خطرہ ہو تو؟ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہﷺ کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھے (یا حج کی لبیک کہتے ہوئے) جا رہے تھے لیکن حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا۔ جب ہم سرف مقام پر پہنچے تو انھیں حیض شروع ہوگیا حتیٰ کہ جب ہم (مکہ مکرمہ میں) آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی تو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا، وہ حلال ہو جائے۔ ہم نے کہا: کس قسم کے حلال ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’مکمل حلال ہو جائیں۔‘‘ چنانچہ ہم نے اپنی بیویوں سے جماع کیے، خوشبوئیں لگائیں اور عام کپڑے پہنے، حالانکہ ہمارے اور یوم عرفہ کے درمیان صرف چار راتیں باقی تھیں، پھر ہم نے ترویے (۸ ذوالحجہ) کے دن دوبارہ احرام باندھا۔ رسول اللہﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے تو انھیں روتے ہوئے پایا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے کیا ہوا؟‘‘ انھوں نے کہا: ہوا یہ ہے کہ مجھے حیض آرہا ہے۔ لوگ (عمرہ کر کے) حلال ہوگئے ہیں اور میں حلال نہیں ہو سکی (یعنی عمرہ ہی نہیں کر سکی۔) اب لوگ حج کو جا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کوئی بات نہیں) یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ رکھی ہے، لہٰذا تو غسل کر، پھر حج کا احرام باندھ لے۔‘‘ تو انھوں نے ایسے ہی کیا اور تمام ٹھہرنے کی جگہوں (منیٰ، عرفات اور مزدلفہ) میں ٹھہریں حتیٰ کہ جب وہ حیض سے پاک ہوگئیں تو انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر آپ نے فرمایا: ’’تو اپنے حج اور عمرے دونوں سے حلال (فارغ) ہوگئی ہے۔‘‘ حضرت عائشہؓ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! میں اپنے دل میں کچھ محسوس کر رہی ہوں کیونکہ میں نے حج سے قبل بیت اللہ کا طواف وغیرہ نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے عبدالرحمن! انھیں لے جاؤ اور انھیں تنعیم سے عمرہ کراؤ۔‘‘ یہ اس رات کی بات ہے جو آپ نے محصب میں گزاری تھی۔
تشریح : (۱) ’’حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا‘‘ ان الفاظ سے ظاہراً یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شروع ہی سے عمرے کا احرام باندھا تھا، مگر یہ درست نہیں۔ اصل بات یوں ہے کہ حضرت عائشہؓ اور اکثر لوگوں نے حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ راستے میں آپ نے وحی کی بنا پر یہ حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کر لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی قربانی کا جانور نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیا۔ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو انھیں حیض شروع ہوگیا، لہٰذا وہ عمرہ نہ کر سکیں۔ یوم ترویہ (۸ ذوالحجہ) تک حیض ہی ختم نہ ہوا کہ عمرہ کر کے حج شروع کرتیں۔ اسی لیے انھیں پریشانی ہوئی جس کا تفصیلی ذکر اس حدیث میں ہے۔ (۲) سرف: یہ ایک مقام ہے مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر۔ (۳) ’’کس قسم کی حلت‘‘ چونکہ ابتداء حج ہی کا احرام باندھا تھا، نیز حج کے افعال شروع ہونے کو صرف تین دن باقی تھے، اس لیے ان کو حلال ہونے میں تردد تھا۔ (۴) ’’مکمل حلت‘‘ یعنی تم جماع کر سکتے ہو۔ (۵) ’’چار راتیں‘‘ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھ ذوالحجہ کو حاجی لوگ منیٰ میں جاتے ہیں۔ درمیان میں یہی تین چار دن تھے۔ (۶) ’’حج کا احرام باندھ لے۔‘‘ یعنی عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لے تاکہ دونوں اٹھے ادا ہو جائیں جیسا کہ آخر میں ہے کہ تو دونوں سے فارغ ہوگئی ہے، یعنی دونوں ادا ہو گئے ہیں۔ گویا صرف نیت دونوں کی چاہیے، افعال صرف حج والے ہی ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، جبکہ احناف کے نزدیک قران کی صورت میں عمرہ الگ کرنا ہوگا، حج الگ۔ صرف احرام مشترکہ ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں: ’’تو عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھ لے۔‘‘ مگر آخری الفاظ: ’’تو حج و عمرہ دونوں سے حلال ہوگئی ہے۔‘‘ اس کے خلاف ہیں۔ (۷) ’’میں اپنے دل میں کچھ محسوس کر رہی ہوں‘‘ یعنی میرا عمرہ حج سے الگ نہیں ہوا، لہٰذا مجھے اطمینان نہیں ہو رہا۔ (۸) ’’اے عبدالرحمن!‘‘ یہ عبدالرحمن حضرت عائشہؓ کے سگے بھائی تھے۔ (۹) ’’تنعیم‘‘ یہ ایک مقام ہے جو مکہ سے تقریباً چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ حد ہے حل اور حرم کے درمیان۔ مطلب نبیﷺ کا یہ تھا کہ انھیں وہاں لے جاؤ تاکہ یہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر آئیں اور الگ عمرہ کریں۔ رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہؓ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ کیونکہ تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں جس سے احرام باندھا جائے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی حائضہ عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی، جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے ’’چھوٹا عمرہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ رواج اور استدلال بے بنیاد ہے۔ (۱۰) ’’محصب میں گزاری‘‘ یہ چودھویں رات تھی ذوالحجہ کی۔ منیٰ سے واپس آتے ہوئے آپ رات یہاں ٹھہرے تھے۔ احناف کے نزدیک یہ رات محصب میں ٹھہرنا حج کی سنت ہے جبکہ دیگر اہل علم کے نزدیک آپ کا یہاں ٹھہرنا اتفاقاً تھا۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ سارا سامان لے کر مکے جائیں اور پھر وہ سامان لے کر یہاں آئیں، لہٰذا پڑاؤ وہاں ڈال لیا۔ سامان کے بغیر مکہ مکرمہ آئے، طواف وداع کیا اور راتوں رات واپس چلے گئے۔ بعض صحابہ سے یہی بات صراحتاً منقول ہے۔ محصب کو حصبہ، حصبائ، ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔ (۱) ’’حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا‘‘ ان الفاظ سے ظاہراً یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شروع ہی سے عمرے کا احرام باندھا تھا، مگر یہ درست نہیں۔ اصل بات یوں ہے کہ حضرت عائشہؓ اور اکثر لوگوں نے حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ راستے میں آپ نے وحی کی بنا پر یہ حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کر لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی قربانی کا جانور نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیا۔ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو انھیں حیض شروع ہوگیا، لہٰذا وہ عمرہ نہ کر سکیں۔ یوم ترویہ (۸ ذوالحجہ) تک حیض ہی ختم نہ ہوا کہ عمرہ کر کے حج شروع کرتیں۔ اسی لیے انھیں پریشانی ہوئی جس کا تفصیلی ذکر اس حدیث میں ہے۔ (۲) سرف: یہ ایک مقام ہے مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر۔ (۳) ’’کس قسم کی حلت‘‘ چونکہ ابتداء حج ہی کا احرام باندھا تھا، نیز حج کے افعال شروع ہونے کو صرف تین دن باقی تھے، اس لیے ان کو حلال ہونے میں تردد تھا۔ (۴) ’’مکمل حلت‘‘ یعنی تم جماع کر سکتے ہو۔ (۵) ’’چار راتیں‘‘ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھ ذوالحجہ کو حاجی لوگ منیٰ میں جاتے ہیں۔ درمیان میں یہی تین چار دن تھے۔ (۶) ’’حج کا احرام باندھ لے۔‘‘ یعنی عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لے تاکہ دونوں اٹھے ادا ہو جائیں جیسا کہ آخر میں ہے کہ تو دونوں سے فارغ ہوگئی ہے، یعنی دونوں ادا ہو گئے ہیں۔ گویا صرف نیت دونوں کی چاہیے، افعال صرف حج والے ہی ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، جبکہ احناف کے نزدیک قران کی صورت میں عمرہ الگ کرنا ہوگا، حج الگ۔ صرف احرام مشترکہ ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں: ’’تو عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھ لے۔‘‘ مگر آخری الفاظ: ’’تو حج و عمرہ دونوں سے حلال ہوگئی ہے۔‘‘ اس کے خلاف ہیں۔ (۷) ’’میں اپنے دل میں کچھ محسوس کر رہی ہوں‘‘ یعنی میرا عمرہ حج سے الگ نہیں ہوا، لہٰذا مجھے اطمینان نہیں ہو رہا۔ (۸) ’’اے عبدالرحمن!‘‘ یہ عبدالرحمن حضرت عائشہؓ کے سگے بھائی تھے۔ (۹) ’’تنعیم‘‘ یہ ایک مقام ہے جو مکہ سے تقریباً چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ حد ہے حل اور حرم کے درمیان۔ مطلب نبیﷺ کا یہ تھا کہ انھیں وہاں لے جاؤ تاکہ یہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر آئیں اور الگ عمرہ کریں۔ رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہؓ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ کیونکہ تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں جس سے احرام باندھا جائے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی حائضہ عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی، جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے ’’چھوٹا عمرہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ رواج اور استدلال بے بنیاد ہے۔ (۱۰) ’’محصب میں گزاری‘‘ یہ چودھویں رات تھی ذوالحجہ کی۔ منیٰ سے واپس آتے ہوئے آپ رات یہاں ٹھہرے تھے۔ احناف کے نزدیک یہ رات محصب میں ٹھہرنا حج کی سنت ہے جبکہ دیگر اہل علم کے نزدیک آپ کا یہاں ٹھہرنا اتفاقاً تھا۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ سارا سامان لے کر مکے جائیں اور پھر وہ سامان لے کر یہاں آئیں، لہٰذا پڑاؤ وہاں ڈال لیا۔ سامان کے بغیر مکہ مکرمہ آئے، طواف وداع کیا اور راتوں رات واپس چلے گئے۔ بعض صحابہ سے یہی بات صراحتاً منقول ہے۔ محصب کو حصبہ، حصبائ، ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔