سنن النسائي - حدیث 2751

الْمَوَاقِيتِ كَيْفَ التَّلْبِيَةُ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَتْ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ وَزَادَ فِيهِ ابْنُ عُمَرَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2751

کتاب: مواقیت کا بیان لبیک کیسے کہا جائے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کی لبیک اس طرح تھی: [لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ! لَبَّیْکَ… لَا شَرِیْکَ لَکَ] ’’میں حاضر ہوں۔ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بلا شبہ تمام تعریفیں اور احسانات تیرے ساتھ خاص ہیں اور حکومت بھی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں یہ الفاظ (اپنی طرف سے) بڑھائے: [لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ، وَالرَّغْبَائُ اِلَیْکَ وَالْعَمَلُ] ’’حاضر ہوں، حاضر ہوں اور اپنے آپ کو تیرے حضور پیش کرتا ہوں۔ ہر قسم کی بھلائی تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔ ہمارا مانگنا بھی تجھی سے ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے۔‘‘
تشریح : الفاظ تلبیہ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کے تلبیے پر اقتصار کیا جائے لیکن اگر کوئی اس میں اضافہ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں چونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ کیا تھا۔ جس پر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، تو ثابت ہوا کہ تلبیہ کے الفاظ میں ایسا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو اللہ کی تعظیم پر مبنی ہو، یہی قول جمہور علماء کا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۴/ ۲۲۰-۲۲۱) الفاظ تلبیہ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کے تلبیے پر اقتصار کیا جائے لیکن اگر کوئی اس میں اضافہ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں چونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ کیا تھا۔ جس پر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، تو ثابت ہوا کہ تلبیہ کے الفاظ میں ایسا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو اللہ کی تعظیم پر مبنی ہو، یہی قول جمہور علماء کا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۴/ ۲۲۰-۲۲۱)