سنن النسائي - حدیث 2748

الْمَوَاقِيتِ كَيْفَ التَّلْبِيَةُ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ إِنَّ سَالِمًا أَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَاهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ يَقُولُ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2748

کتاب: مواقیت کا بیان لبیک کیسے کہا جائے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو لبیک کہتے سنا۔ آپ فرما رہے تھے: [لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ! لَبَّیْکَ… لَا شَرِیْکَ لَکَ] ’’میں حاضر ہوں۔ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بلا شبہ تمام تعریفیں اور احسانات تیرے ساتھ خاص ہیں اور حکومت بھی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ ذوالحلیفہ کی مسجد میں آپ کو لے کر کھڑی ہوتی تو آپ بلند آواز سے یہ کلمات ادا فرماتے۔
تشریح : (۱) احرام میں دل کی نیت اصل ہے لیکن اس کے ساتھ زبان سے لبیک کی ادائیگی کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ صرف دو ان سلی سادہ چادریں پہننے سے احرام شروع نہیں ہوتا جب تک دل کی نیت اور لبیک کی ادائیگی نہ ہو۔ (۲) لبیک عام طور پر کسی کے بلانے کے جواب میں کہ جاتا ہے۔ غالباً یہ لبیک اس اعلان کے جواب میں ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے حج کی فرضیت کے بارے میں بیت اللہ کی تکمیل کے بعد کیا تھا کیونکہ اس اعلان کا تعلق ہر انسان سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ حج کرنے جاتا ہے۔ (یاد رہے کہ یہاں حج سے مراد حج اور عمرہ دونوں ہیں کیونکہ عمرے کو حج اصغر بھی کہا جاتا ہے۔) (۳) لبیک مختصر ہے ایک لمبے جملے سے، جس کے معنی ہیں: اے اللہ! میں تیرے حضور بار بار اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی نماز وغیرہ میں بھی ہے لیکن حج کی پیشی ایک خصوصی رنگ رکھتی ہے، لہٰذا لبیک حج ہی کے ساتھ خاص ہے۔ (۴) لبیک پکارنے کو ’’اِھلال‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ’’اِھلال‘‘ کے معنی ہیں، آواز بلند کرنا۔ چونکہ لبیک بلند آواز سے پکاری جاتی ہے لہٰذا اسے ’’اِھلال‘‘ کہتے ہیں، پھر چونکہ لبیک سے احرام شروع ہوتا ہے، اس لیے ’’اھلال‘‘ احرام کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (۵) ’’جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوتی‘‘ احرام کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کر کے ان سلی اور سادہ دو چادریں تہ بند اور قمیص کی جگہ لپیٹ لی جائیں، پھر فوراً لبیک شروع کر دیا جائے اور پھر وقتاً فوقتاً بلند آواز سے لبیک پکارتے رہیں۔ عمرے والا حرم تک اور حج والا ۱۰ تاریخ کو رمی کی آخری کنکری کے ساتھ تلبیہ بند کرے گا۔ نبیﷺ نے نماز کے فوراً بعد ہی لبیک کہہ دیا تھا مگر وہ چند قریبی افراد نے سنا، پھر جب آپ سواری پر سوار ہوئے تو پھر لبیک پکارا جو پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا مگر سب نے نہیں، پھر آپ بیداء کے ٹیلے پر چڑھے تو پھر لبیک پکارا جو تقریباً سب نے سنا۔ جس نے جہاں سنا، بیان کر دیا، کوئی اختلاف نہیں۔ (۶) تلبیہ آپ نے سب سے پہلے کون سی نماز کے بعد پکارا؟ ایک رائے کے مطابق نماز فجر کے بعد۔ موقف ہذا کی دلیل میں صحیح بخاری کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، حدیث: ۱۵۵۱) لیکن اس حدیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں۔ صحیح مسلم (حدیث: ۱۲۴۳) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز ظہر تھی اور یہی درست ہے کیونکہ نبیﷺ عصر کے وقت ذوالحلیفہ پہنچے تھے، اور آپ نے عصر کی نماز قصر، یعنی دو رکعت ادا فرمائی تھی، پھر رات آپ نے ذوالحلیفہ ہی میں گزاری اور دوسرے روز نماز ظہر کے فوراً بعد تلبیے کا آغاز فرمایا، پھر جب آپ اونٹنی پر بیٹھ گئے تو تلبیہ پکارا اور اسی طرح بیداء (ٹیلے) پر تلبیہ پکارا۔ (۷) بعض روایات میں ہے، نبیﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی (صحیح البخاری، حدیث: ۱۵۳۲) یہ نماز احرام کی دو رکعتیں تھیں یا عصر کے دو فرض تھے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ظاہری الفاظ سے دونوں باتیں محتمل ہیں، لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں جو دو رکعتیں ادا فرمائی تھیں، وہ عصر کی نماز دوگانہ تھی۔ دیکھیے: (فتح الباری: ۳/ ۴۹۳، مطبوعہ دارالسلام، زیر بحث حدیث: ۱۵۳۲) اس لیے اسے احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے حکم یا استحباب کے لیے نص قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبیﷺ آتے جاتے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس سے مطلقاً ذوالحلیفہ میں بطور تبرک کے دو رکعت پڑھنے کا جواز یا استحباب تو معلوم ہوتا ہے لیکن احرام کے وقت یا احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اثبات نہیں ہوتا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں، البتہ وہ وقت فرض نماز کا ہو تو نماز کے بعد احرام باندھا جائے، رسول اللہﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ، للالبانی، ص: ۱۵، ۱۶ مکتبۃ المعارف، الریاض) (۱) احرام میں دل کی نیت اصل ہے لیکن اس کے ساتھ زبان سے لبیک کی ادائیگی کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ صرف دو ان سلی سادہ چادریں پہننے سے احرام شروع نہیں ہوتا جب تک دل کی نیت اور لبیک کی ادائیگی نہ ہو۔ (۲) لبیک عام طور پر کسی کے بلانے کے جواب میں کہ جاتا ہے۔ غالباً یہ لبیک اس اعلان کے جواب میں ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے حج کی فرضیت کے بارے میں بیت اللہ کی تکمیل کے بعد کیا تھا کیونکہ اس اعلان کا تعلق ہر انسان سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ حج کرنے جاتا ہے۔ (یاد رہے کہ یہاں حج سے مراد حج اور عمرہ دونوں ہیں کیونکہ عمرے کو حج اصغر بھی کہا جاتا ہے۔) (۳) لبیک مختصر ہے ایک لمبے جملے سے، جس کے معنی ہیں: اے اللہ! میں تیرے حضور بار بار اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی نماز وغیرہ میں بھی ہے لیکن حج کی پیشی ایک خصوصی رنگ رکھتی ہے، لہٰذا لبیک حج ہی کے ساتھ خاص ہے۔ (۴) لبیک پکارنے کو ’’اِھلال‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ’’اِھلال‘‘ کے معنی ہیں، آواز بلند کرنا۔ چونکہ لبیک بلند آواز سے پکاری جاتی ہے لہٰذا اسے ’’اِھلال‘‘ کہتے ہیں، پھر چونکہ لبیک سے احرام شروع ہوتا ہے، اس لیے ’’اھلال‘‘ احرام کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (۵) ’’جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوتی‘‘ احرام کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کر کے ان سلی اور سادہ دو چادریں تہ بند اور قمیص کی جگہ لپیٹ لی جائیں، پھر فوراً لبیک شروع کر دیا جائے اور پھر وقتاً فوقتاً بلند آواز سے لبیک پکارتے رہیں۔ عمرے والا حرم تک اور حج والا ۱۰ تاریخ کو رمی کی آخری کنکری کے ساتھ تلبیہ بند کرے گا۔ نبیﷺ نے نماز کے فوراً بعد ہی لبیک کہہ دیا تھا مگر وہ چند قریبی افراد نے سنا، پھر جب آپ سواری پر سوار ہوئے تو پھر لبیک پکارا جو پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا مگر سب نے نہیں، پھر آپ بیداء کے ٹیلے پر چڑھے تو پھر لبیک پکارا جو تقریباً سب نے سنا۔ جس نے جہاں سنا، بیان کر دیا، کوئی اختلاف نہیں۔ (۶) تلبیہ آپ نے سب سے پہلے کون سی نماز کے بعد پکارا؟ ایک رائے کے مطابق نماز فجر کے بعد۔ موقف ہذا کی دلیل میں صحیح بخاری کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، حدیث: ۱۵۵۱) لیکن اس حدیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں۔ صحیح مسلم (حدیث: ۱۲۴۳) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز ظہر تھی اور یہی درست ہے کیونکہ نبیﷺ عصر کے وقت ذوالحلیفہ پہنچے تھے، اور آپ نے عصر کی نماز قصر، یعنی دو رکعت ادا فرمائی تھی، پھر رات آپ نے ذوالحلیفہ ہی میں گزاری اور دوسرے روز نماز ظہر کے فوراً بعد تلبیے کا آغاز فرمایا، پھر جب آپ اونٹنی پر بیٹھ گئے تو تلبیہ پکارا اور اسی طرح بیداء (ٹیلے) پر تلبیہ پکارا۔ (۷) بعض روایات میں ہے، نبیﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی (صحیح البخاری، حدیث: ۱۵۳۲) یہ نماز احرام کی دو رکعتیں تھیں یا عصر کے دو فرض تھے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ظاہری الفاظ سے دونوں باتیں محتمل ہیں، لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں جو دو رکعتیں ادا فرمائی تھیں، وہ عصر کی نماز دوگانہ تھی۔ دیکھیے: (فتح الباری: ۳/ ۴۹۳، مطبوعہ دارالسلام، زیر بحث حدیث: ۱۵۳۲) اس لیے اسے احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے حکم یا استحباب کے لیے نص قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبیﷺ آتے جاتے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس سے مطلقاً ذوالحلیفہ میں بطور تبرک کے دو رکعت پڑھنے کا جواز یا استحباب تو معلوم ہوتا ہے لیکن احرام کے وقت یا احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اثبات نہیں ہوتا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں، البتہ وہ وقت فرض نماز کا ہو تو نماز کے بعد احرام باندھا جائے، رسول اللہﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ، للالبانی، ص: ۱۵، ۱۶ مکتبۃ المعارف، الریاض)