سنن النسائي - حدیث 2746

الْمَوَاقِيتِ الْحَجُّ بِغَيْرِ نِيَّةٍ يَقْصِدُهُ الْمُحْرِمُ صحيح أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ أَمَّرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْيَمَنِ فَأَصَبْتُ مَعَهُ أَوَاقِي فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلِيٌّ وَجَدْتُ فَاطِمَةَ قَدْ نَضَحَتْ الْبَيْتَ بِنَضُوحٍ قَالَ فَتَخَطَّيْتُهُ فَقَالَتْ لِي مَا لَكَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَحَلُّوا قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي كَيْفَ صَنَعْتَ قُلْتُ إِنِّي أَهْلَلْتُ بِمَا أَهْلَلْتَ قَالَ فَإِنِّي قَدْ سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2746

کتاب: مواقیت کا بیان محرم کا نیت معین کیے بغیر احرام باندھنا حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن پر حاکم مقرر فرمایا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ کچھ اوقیے ملے تھے، پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نبیﷺ کے پاس (یمن سے حجۃ الوداع میں مکہ) آئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے گھر کو خوشبو لگا رکھی تھی۔ میں (حضرت فاطمہ کی طرف توجہ کیے بغیر) گھر سے گزر گیا تو وہ مجھے کہنے لگیں: کیا وجہ ہے؟ (آپ توجہ نہیں فرما رہے)؟ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کو خود حکم دیا ہے اور وہ حلال ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا: میں نے تو نبیﷺ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے، پھر میں نبیﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کیسے احرام باندھا ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں نے آپ کے احرام کی طرح باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ تفصیل حدیث نمبر ۲۷۲۶ کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ (۲) ’’اوقیے ملے تھے۔‘‘ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے وقتی طور پر زکاۃ وغیرہ اکٹھی کرنے پر مقرر کیے گئے ہوں گے تو اس کام کے عوض انھیں کچھ اوقیے ملے۔ (۳) ’’خوشبو لگا رکھی تھی‘‘ کیونکہ وہ عمرہ کر کے حلال ہو چکی تھیں اور انھیں توقع تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حلال ہو جائیں گے لیکن چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ یوم نحر سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے۔ (۱) یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ تفصیل حدیث نمبر ۲۷۲۶ کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ (۲) ’’اوقیے ملے تھے۔‘‘ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے وقتی طور پر زکاۃ وغیرہ اکٹھی کرنے پر مقرر کیے گئے ہوں گے تو اس کام کے عوض انھیں کچھ اوقیے ملے۔ (۳) ’’خوشبو لگا رکھی تھی‘‘ کیونکہ وہ عمرہ کر کے حلال ہو چکی تھیں اور انھیں توقع تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حلال ہو جائیں گے لیکن چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ یوم نحر سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے۔