الْمَوَاقِيتِ تَرْكُ التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الْإِهْلَالِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ أَتَيْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ بِالْمَدِينَةِ تِسْعَ حِجَجٍ ثُمَّ أُذِّنَ فِي النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجِّ هَذَا الْعَامِ فَنَزَلَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَفْعَلُ مَا يَفْعَلُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقِعْدَةِ وَخَرَجْنَا مَعَهُ قَالَ جَابِرٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا عَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا فَخَرَجْنَا لَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ
کتاب: مواقیت کا بیان
لبیک کہتے وقت حج یا عمرے کا نام نہ لینا
حضرت محمد (باقر) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے نبیﷺ کے حج کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو مدینے میں رہتے ہوئے نو سال ہو چکے تھے، پھر (دسویں سال) تمام لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ اس سال رسول اللہﷺ حج کے لیے تشریف لے جائیں گے، لہٰذا بہت زیادہ لوگ مدینہ منورہ آگئے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کی اقتدا میں حج کرے اور جس طرح آپ حج کریں، وہ بھی اسی طرح کرے۔ رسول اللہﷺ حج کے لیے نکلے تو ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تھے۔ آپ پر وحی اترتی تھی اور آپ ہی قرآن مجید کی صحیح تفسیر جانتے تھے، لہٰذا جو آپ نے کیا، ہم نے بھی کیا۔ ہم (مدینہ منورہ سے) نکلے تو ہماری نیت حج ہی کی تھی۔
تشریح :
(۱) ’’نو سال‘‘ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔ (۲) ’’اعلان کروایا گیا۔‘‘ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔ (۳) ’’نیت حج کی تھی۔‘‘ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَّ بَحَجَّۃٍ ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الحج، حدیث: ۱۵۶۳، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۳۲) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔
(۱) ’’نو سال‘‘ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔ (۲) ’’اعلان کروایا گیا۔‘‘ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔ (۳) ’’نیت حج کی تھی۔‘‘ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَّ بَحَجَّۃٍ ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الحج، حدیث: ۱۵۶۳، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۳۲) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔