سنن النسائي - حدیث 2739

الْمَوَاقِيتِ التَّمَتُّعُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ قَيْسٍ وَهُوَ ابْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ فَقَالَ بِمَا أَهْلَلْتَ قُلْتُ أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حِلَّ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي وَغَسَلَتْ رَأْسِي فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ وَإِمَارَةِ عُمَرَ وَإِنِّي لَقَائِمٌ بِالْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قُلْتُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ بِشَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَأْتَمُّوا بِهِ فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الَّذِي أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قَالَ إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2739

کتاب: مواقیت کا بیان تمتع کا بیان حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں (یمن سے) رسول اللہﷺ کے پاس (حجۃ الوداع کے موقع پر) بطحاء میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’تو نے کیا احرام باندھا ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں نے تو نبیﷺ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’قربانی کا کوئی جانور ساتھ لایا ہے؟‘‘ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر بیت اللہ کا طواف کر اور صفا مروہ کی سعی کر اور حلال ہو جا۔‘‘ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا۔ اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا۔ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یہی فتویٰ دیا کرتا تھا (کہ حج تمتع جائز ہے)۔ ایک دفعہ میں موسم حج میں کھڑا (یہ فتویٰ دے رہا) تھا کہ میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: شاید آپ کو معلوم نہیں کہ امیر المومنین (حضرت عمر) رضی اللہ عنہ نے حج کے بارے میں ایک نیا حکم جاری کر دیا ہے (کہ تمتع قسم کا) کوئی فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا ٹھہر جائے (اس پر عمل نہ کرے) حضرت امیرالمومنین تمہارے پاس آنے ہی والے ہیں تو ان کی اقتدا کرنا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: امیرالمومنین! کیا (عجیب) حکم ہے جو آپ نے حج کے بارے میں جاری کیا ہے؟ وہ فرمانے لگے: ’’حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے پورا کرو۔‘‘ (یعنی درمیان حلال نہ ہو) اور اگر ہم نبیﷺ کی سنت کو لیں تو نبیﷺ حلال نہیں ہوئے تھے حتیٰ کہ آپ نے قربانی ذبح فرمائی۔
تشریح : (۱) ’’نبیﷺ کے احرام کی طرح‘‘ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میں احرام باندھتا ہوں نبیﷺ کے احرام کی طرح۔ ورنہ انھیں اس وقت پتا نہ تھا کہ نبیﷺ نے کیا احرام باندھا ہے۔ (۲) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو خود نبی اکرمﷺ نے یمن بھیجا تھا کیونکہ یہ بھی یمنی تھے، پھر یہ حجۃ الوداع کی اطلاع پر یمن سے مکہ پہنچے۔ (۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید بھی اتمام کا حکم دیتا ہے۔ ظاہر ہے حج کی نیت رکھنے والے کا عمرہ کر کے حلال ہو جانا حج کے اتمام کے خلاف ہے کیونکہ ابھی حج تو ہوا ہی نہیں، وہ حلال بھی ہوگیا۔ ہاں جو آدمی جائے ہی عمرے کی نیت سے، وہ عمرے کا احرام باندھے اور عمرہ کر کے حلال ہو مگر حج کی نیت والا عمرے کا احرام کیوں باندھے؟ اور رسول اللہﷺ نے بھی حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ باوجود عمرہ داخل ہونے کے پھر بھی حلال حج کی تکمیل کے بعد ہی ہوئے تھے۔ باقی رہا آپ کا صحابہ کو یہ حکم دینا کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل کر عمرہ کر کے حلال ہو جاؤ، یہ مخصوص حکم تھا جو مخصوص حالت میں وحی کی بنا پر ہنگامی طور پر جاری کیا گیا۔ یہ ہمیشہ کے لیے ہے، لہٰذا جو حج کرنا چاہتا ہے وہ حج ہی کا احرام باندھے یا پھر حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھے اور حج کی تکمیل کے بعد ہی احرام ختم کرے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد میں کوئی شک نہیں لیکن صاحب قرآن کا عمل اور تمتع کے لیے آپ کا حکم یقینا مقدم ہے کیونکہ آپ ہی شارع ہیں، نیز یہ کوئی وقتی حکم نہ تھا جیسا کہ سیدنا عمر و غیرہ نے سمجھا بلکہ یہ استحباب ہمیشہ کے لیے ہے جیسا کہ ایک سائل کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ عمرہ حج میں تا قیامت داخل ہوگیا۔ اس سے تخصیص کا موقف کمزور ٹھہرتا ہے۔ واللہ اعلم (۱) ’’نبیﷺ کے احرام کی طرح‘‘ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میں احرام باندھتا ہوں نبیﷺ کے احرام کی طرح۔ ورنہ انھیں اس وقت پتا نہ تھا کہ نبیﷺ نے کیا احرام باندھا ہے۔ (۲) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو خود نبی اکرمﷺ نے یمن بھیجا تھا کیونکہ یہ بھی یمنی تھے، پھر یہ حجۃ الوداع کی اطلاع پر یمن سے مکہ پہنچے۔ (۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید بھی اتمام کا حکم دیتا ہے۔ ظاہر ہے حج کی نیت رکھنے والے کا عمرہ کر کے حلال ہو جانا حج کے اتمام کے خلاف ہے کیونکہ ابھی حج تو ہوا ہی نہیں، وہ حلال بھی ہوگیا۔ ہاں جو آدمی جائے ہی عمرے کی نیت سے، وہ عمرے کا احرام باندھے اور عمرہ کر کے حلال ہو مگر حج کی نیت والا عمرے کا احرام کیوں باندھے؟ اور رسول اللہﷺ نے بھی حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ باوجود عمرہ داخل ہونے کے پھر بھی حلال حج کی تکمیل کے بعد ہی ہوئے تھے۔ باقی رہا آپ کا صحابہ کو یہ حکم دینا کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل کر عمرہ کر کے حلال ہو جاؤ، یہ مخصوص حکم تھا جو مخصوص حالت میں وحی کی بنا پر ہنگامی طور پر جاری کیا گیا۔ یہ ہمیشہ کے لیے ہے، لہٰذا جو حج کرنا چاہتا ہے وہ حج ہی کا احرام باندھے یا پھر حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھے اور حج کی تکمیل کے بعد ہی احرام ختم کرے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد میں کوئی شک نہیں لیکن صاحب قرآن کا عمل اور تمتع کے لیے آپ کا حکم یقینا مقدم ہے کیونکہ آپ ہی شارع ہیں، نیز یہ کوئی وقتی حکم نہ تھا جیسا کہ سیدنا عمر و غیرہ نے سمجھا بلکہ یہ استحباب ہمیشہ کے لیے ہے جیسا کہ ایک سائل کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ عمرہ حج میں تا قیامت داخل ہوگیا۔ اس سے تخصیص کا موقف کمزور ٹھہرتا ہے۔ واللہ اعلم