سنن النسائي - حدیث 2736

الْمَوَاقِيتِ التَّمَتُّعُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ حَتَّى لَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ عُمَرُ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعَرِّسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ ثُمَّ يَرُوحُوا بِالْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2736

کتاب: مواقیت کا بیان تمتع کا بیان حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تمتع کے جواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اس قسم کا فتویٰ دینے سے رک جاؤ۔ شاید آپ کو پتا نہیں کہ تمھارے بعد امیرالمومنین (حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) نے اس کے بارے میں کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے۔ (حضرت ابو موسیٰ نے کہا:) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا۔ وہ فرمانے لگے: تحقیق! مجھے بھی معلوم ہے کہ نبیﷺ نے یہ کیا ہے مگر میں نے اچھا نہ سمجھا کہ لوگ رات کو پیلو کے درختوں کے نیچے بیویوں کے ساتھ جماع کرتے رہیں اور پھر حج کو جائیں تو ان کے سروں سے (غسل جنابت کے) پانی کے قطرے گر رہے ہوں۔
تشریح : (۱) اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے شرعاً جائز سمجھتے تھے مگر مذکورہ علت کی وجہ سے حج تمتع کو بہتر نہ سمجھا جو کہ آپ کی ایک اجتہادی غلطی تھی، تاہم درست یہی ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ واللہ اعلم (۲) ’’نبی اکرمﷺ نے یہ کیا ہے۔‘‘ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا ورنہ آپ حلال نہ ہوئے تھے۔ یا لغوی معنی میں آپ نے تمتع کیا ہے۔ اور اس معنی میں تو حضرت عمر بھی تمتع (قران) کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔ (۳) ’’پیلو کے درختوں کے نیچے‘‘ ان دنوں وہاں یہ درخت عام ہوں گے، اس لیے اتفاقاً ان کا ذکر فرمایا۔ (۱) اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے شرعاً جائز سمجھتے تھے مگر مذکورہ علت کی وجہ سے حج تمتع کو بہتر نہ سمجھا جو کہ آپ کی ایک اجتہادی غلطی تھی، تاہم درست یہی ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ واللہ اعلم (۲) ’’نبی اکرمﷺ نے یہ کیا ہے۔‘‘ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا ورنہ آپ حلال نہ ہوئے تھے۔ یا لغوی معنی میں آپ نے تمتع کیا ہے۔ اور اس معنی میں تو حضرت عمر بھی تمتع (قران) کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔ (۳) ’’پیلو کے درختوں کے نیچے‘‘ ان دنوں وہاں یہ درخت عام ہوں گے، اس لیے اتفاقاً ان کا ذکر فرمایا۔