سنن النسائي - حدیث 2726

الْمَوَاقِيتِ الْقِرَانُ صحيح أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِينَ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْيَمَنِ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلِيٌّ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ صَنَعْتَ قُلْتُ أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِكَ قَالَ فَإِنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ قَالَ وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ وَلَكِنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2726

کتاب: مواقیت کا بیان عمرے اور حج کا اکٹھا احرام باندھنا حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر بنایا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب وہ (حجۃ الوداع کے موقع پر یمن سے) رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تو نے احرام کیسے باندھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے تو آپ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تو قربانی کے جانور بھی ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا ہے۔‘‘ آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا: ’’اگر مجھے اس حکم کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا (یعنی عمرے کے وجوب کا) تو میں اسی طرح کرتا جیسے تم نے کیا، لیکن میں تو قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں، لہٰذا میرا حج وعمرہ اکٹھا ہوگا۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث کی سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے لیکن اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ جن کا محقق کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک شاہد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث بھی ہے، لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے اور ابو اسحاق کا عنعنہ یہاں مضر نہیں۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۴/ ۱۵۹-۱۶۲) (۲) ’’کیسے احرام باندھا ہے؟‘‘ یعنی صرف حج کا یا صرف عمرے کا یا دونوں کا؟ (۲) ’’آپ کے احرام کی طرح۔‘‘ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگا۔ اگرچہ اس وقت انھیں علم نہ تھا۔ کہ رسول اللہﷺ نے احرام کیسے باندھا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا عملاً بھی ان کا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگیا۔ (۳) ’’میں اسی طرح کرتا۔‘‘ یعنی قربانی ساتھ نہ لاتا (بلکہ موقع پر خریدتا) اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا۔ (۴) ثابت ہوا تمتع اور قران شرعاً جائز ہیں، بلکہ تمتع افضل ہے اور آسانی کا باعث بھی۔ (۱) اس حدیث کی سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے لیکن اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ جن کا محقق کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک شاہد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث بھی ہے، لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے اور ابو اسحاق کا عنعنہ یہاں مضر نہیں۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۴/ ۱۵۹-۱۶۲) (۲) ’’کیسے احرام باندھا ہے؟‘‘ یعنی صرف حج کا یا صرف عمرے کا یا دونوں کا؟ (۲) ’’آپ کے احرام کی طرح۔‘‘ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگا۔ اگرچہ اس وقت انھیں علم نہ تھا۔ کہ رسول اللہﷺ نے احرام کیسے باندھا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا عملاً بھی ان کا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگیا۔ (۳) ’’میں اسی طرح کرتا۔‘‘ یعنی قربانی ساتھ نہ لاتا (بلکہ موقع پر خریدتا) اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا۔ (۴) ثابت ہوا تمتع اور قران شرعاً جائز ہیں، بلکہ تمتع افضل ہے اور آسانی کا باعث بھی۔