سنن النسائي - حدیث 2723

الْمَوَاقِيتِ الْقِرَانُ صحيح أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُثْمَانَ فَسَمِعَ عَلِيًّا يُلَبِّي بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ فَقَالَ أَلَمْ نَكُنْ نُنْهَى عَنْ هَذَا قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي بِهِمَا جَمِيعًا فَلَمْ أَدَعْ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2723

کتاب: مواقیت کا بیان عمرے اور حج کا اکٹھا احرام باندھنا حضرت مروان بن حکم سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حج اور عمرے کی اکٹھی لبیک کہتے سنا: حضرت عثمان فرمانے لگے: کیا آپ کو علم نہیں کہ اس سے روکا گیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: یقینا علم ہے مگر میں نے رسول اللہﷺ کو دونوں کی اکٹھی لبیک کہتے سنا ہے۔ میں تمھارے حکم کی وجہ سے نبیﷺ کا فرمان نہیں چھوڑ سکتا۔
تشریح : (۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح حج وعمراہ اکٹھا کرنے سے روکتے تھے۔ کیونکہ وہ حج افراد کو افضل سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کا حکم بھی دیتے تھے۔ اور یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا۔ بہرحال اگر کوئی حج قران یا تمتع کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ احادیث کی روشنی میں یہ موقف صحیح ہے۔ واللہ اعلم (۲) عالم کو اپنے علم کی اشاعت اور اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ امراء سے ڈر کر مسئلے کو چھپانا جائز نہیں، لیکن یہ اظہار مسلمانوں کی اصلاح اور خیر خواہی کی نیت سے ہو نہ کہ کسی فتنے کی بنیاد ڈالنے کے لیے۔ (۳) ایک مجتہد دوسرے مجتہد کو اپنی تقلید یا حمایت پر مجبور نہیں کر سکتا۔ (۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح حج وعمراہ اکٹھا کرنے سے روکتے تھے۔ کیونکہ وہ حج افراد کو افضل سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کا حکم بھی دیتے تھے۔ اور یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا۔ بہرحال اگر کوئی حج قران یا تمتع کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ احادیث کی روشنی میں یہ موقف صحیح ہے۔ واللہ اعلم (۲) عالم کو اپنے علم کی اشاعت اور اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ امراء سے ڈر کر مسئلے کو چھپانا جائز نہیں، لیکن یہ اظہار مسلمانوں کی اصلاح اور خیر خواہی کی نیت سے ہو نہ کہ کسی فتنے کی بنیاد ڈالنے کے لیے۔ (۳) ایک مجتہد دوسرے مجتہد کو اپنی تقلید یا حمایت پر مجبور نہیں کر سکتا۔