سنن النسائي - حدیث 2720

الْمَوَاقِيتِ الْقِرَانُ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ كُنْتُ أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ فَكُنْتُ حَرِيصًا عَلَى الْجِهَادِ فَوَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ عَشِيرَتِي يُقَالُ لَهُ هُرَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ اجْمَعْهُمَا ثُمَّ اذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ فَأَهْلَلْتُ بِهِمَا فَلَمَّا أَتَيْتُ الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي أَسْلَمْتُ وَأَنَا حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ فَأَتَيْتُ هُرَيْمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقُلْتُ يَا هَنَاهْ إِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ فَقَالَ اجْمَعْهُمَا ثُمَّ اذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ فَأَهْلَلْتُ بِهِمَا فَلَمَّا أَتَيْنَا الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ فَقَالَ عُمَرُ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2720

کتاب: مواقیت کا بیان عمرے اور حج کا اکٹھا احرام باندھنا حضرت عبسی بن معبد بیان کرتے ہیں کہ میں اعرابی اور عیسائی تھا، پھر میں مسلمان ہوگیا۔ مجھے جہاد کا بہت شوق تھا لیکن مجھے پتا چلا کہ مجھ پر تو حج اور عمرہ فرض ہیں۔ میں اپنے قبیلے کے ایک آدمی کے پاس آیا جن کا نام ہریم بن عبداللہ تدا۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: دونوں بیک وقت کر لو، پھر قربانی کا جو جانور میسر ہو ذبح کر دینا۔ میں نے دونوں کا احرام باندھ لیا۔ جب ہم عذیب مقام پر پہنچے تو مجھے سلمان بن ربیعہ اور حضرت زید بن صوحان ملے۔ میں حج اور عمرے کی لبیک کہہ رہا تھا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص تو اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھ دار معلوم نہیں ہوتا۔ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: اے امیرالمومنین! میں نے اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے جہاد کا بہت شوق ہے لیکن میں نے حج اور عمرہ اپنے آپ پر فرض پایا ہے۔ میں ہریم بن عبداللہ کے پاس گیا۔ میں نے کہا: اے وہ (ہُریم)! میں نے اپنے آپ پر حج اور عمرہ دونوں کو فرض پایا ہے (تو میں کیا کروں؟) انھوں نے کہا: دونوں کا احرام اکٹھا باندھ لو، پھر جو قربانی میسر ہو، ذبح کر دینا۔ میں نے دونوں کا احرام باندھ لیا۔ جب میں عذیب مقام پر پہنچا تو مجھے حضرت سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان ملے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: یہ اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں تمھارے نبیﷺ کی سنت کی توفیق ملی ہے۔
تشریح : (۱) ’’حج اور عمرہ فرض ہیں۔ شاید انھوں نے یہ بات ارشاد باری تعالیٰ: {وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ} (البقرہ۲: ۱۹۶) سے اخذ کی ہو یا شاید کسی نے انھیں فتویٰ دیا ہو۔ (۲) ’’جانور ذبح کر دینا۔‘‘ کیونکہ حج کے ساتھ عمرہ کیا جائے تو ایک جانور ذبح کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ (۳) ’’اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں‘‘ کیونکہ وہ لوگ حج اور عمرے کو اکٹھا کرنا صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ انھیں علم نہیں تھا۔ (۴) ’’سنت کی توفیق ملی ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صرف تمتع سے روکتے تھے، قران سے نہیں۔ گویا وہ عمرے اور حج کے دوران میں حلال ہونے کو جائز نہیں سمجھتے تھے کیونکہ رسول اللہﷺ درمیان میں حلال نہیں ہوئے تھے۔ (۵) مسئلے کا علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہیے۔ (۱) ’’حج اور عمرہ فرض ہیں۔ شاید انھوں نے یہ بات ارشاد باری تعالیٰ: {وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ} (البقرہ۲: ۱۹۶) سے اخذ کی ہو یا شاید کسی نے انھیں فتویٰ دیا ہو۔ (۲) ’’جانور ذبح کر دینا۔‘‘ کیونکہ حج کے ساتھ عمرہ کیا جائے تو ایک جانور ذبح کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ (۳) ’’اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں‘‘ کیونکہ وہ لوگ حج اور عمرے کو اکٹھا کرنا صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ انھیں علم نہیں تھا۔ (۴) ’’سنت کی توفیق ملی ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صرف تمتع سے روکتے تھے، قران سے نہیں۔ گویا وہ عمرے اور حج کے دوران میں حلال ہونے کو جائز نہیں سمجھتے تھے کیونکہ رسول اللہﷺ درمیان میں حلال نہیں ہوئے تھے۔ (۵) مسئلے کا علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہیے۔