سنن النسائي - حدیث 2714

الْمَوَاقِيتِ تَخْمِيرُ الْمُحْرِمِ وَجْهَهُ وَرَأْسَهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا بِشْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَأَقْعَصَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَيُكَفَّنُ فِي ثَوْبَيْنِ خَارِجًا رَأْسُهُ وَوَجْهُهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2714

کتاب: مواقیت کا بیان محرم (مرد)کے لیے اپنا چہرہ اور سر ڈھانپنا(درست نہیں) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی (احرام کی حالت میں) اپنی سواری سے گر پڑا۔ اس (سواری) نے اسے فوراً مار ڈالا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے (احرام والے) دو کپڑوں میں کفن دیا جائے۔ سر اور چہرہ ننگا رہے کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔‘‘
تشریح : (۱) مرد کو احرام کی حالت میں چہرہ ننگا رکھنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: ۲۶۷۴۔ (۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم فوت ہو جائے تو اس کی احرام والی حالت قائم رکھی جائے۔ اسے یا کفن کو خوشبو لگائی جائے۔ اور سر اور چہرہ ننگا رکھا جائے۔ وہ قیامت کے دن بھی احرام کی حالت میں اٹھے گا۔ مگر احناف اسے ہر محرم کے لیے درست نہیں سمجھتے کیونکہ موت سے اعمال ختم ہو جاتے ہیں، احرام کیسے باقی رہ گیا؟ لیکن یہ صریح فرمان نبوی کے مقابلے میں قیاس ہے جو بہت بری بات ہے، نیز میت کا ایمان باقی رہ سکتا ہے تو احرام کیوں نہیں؟ احناف اس حکم کو صرف اس شخص کے ساتھ خاص رکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں خاص وحی آئی ہو گی۔ مگر یہ بات بلا دلیل ہے۔ ’’ہوگا، ہوگی‘‘ سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ حدیث کے آخری الفاظ: ’’وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔‘‘ بھی اس حکم کو عام کرتے ہیں کیونکہ لبیک کہنا اس شخص کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ پھر دیگر احادیث بھی دلالت کرتی ہیں کہ کوئی شخص جس حالت میں فوت ہوگا، اسی حالت میں اٹھے گا، مثلاً شہید اور خود کشی کرنے والا وغیرہ۔ (۳) اس روایت میں سر کے ساتھ چہرہ ننگا رکھنے کا بھی حکم ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ احرام کی حالت میں چہرہ ننگا رکھنا مرد کے لیے ضروری ہے، مگر امام شافعی کا خیال ہے کہ چہرہ ننگا رکھنا صرف سر ننگا رکھنے کے لیے ہے ورنہ احرام میں مرد کے لیے چہرہ ننگا رکھنا ضروری نہیں۔ بہر صورت احتیاط یہی ہے کہ چہرہ بھی ننگا رکھا جائے۔ اہل ظاہر اس مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں مگر میت محرم کی صورت میں چہرہ ننگا رکھنے کے قائل ہیں۔ (۱) مرد کو احرام کی حالت میں چہرہ ننگا رکھنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: ۲۶۷۴۔ (۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم فوت ہو جائے تو اس کی احرام والی حالت قائم رکھی جائے۔ اسے یا کفن کو خوشبو لگائی جائے۔ اور سر اور چہرہ ننگا رکھا جائے۔ وہ قیامت کے دن بھی احرام کی حالت میں اٹھے گا۔ مگر احناف اسے ہر محرم کے لیے درست نہیں سمجھتے کیونکہ موت سے اعمال ختم ہو جاتے ہیں، احرام کیسے باقی رہ گیا؟ لیکن یہ صریح فرمان نبوی کے مقابلے میں قیاس ہے جو بہت بری بات ہے، نیز میت کا ایمان باقی رہ سکتا ہے تو احرام کیوں نہیں؟ احناف اس حکم کو صرف اس شخص کے ساتھ خاص رکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں خاص وحی آئی ہو گی۔ مگر یہ بات بلا دلیل ہے۔ ’’ہوگا، ہوگی‘‘ سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ حدیث کے آخری الفاظ: ’’وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔‘‘ بھی اس حکم کو عام کرتے ہیں کیونکہ لبیک کہنا اس شخص کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ پھر دیگر احادیث بھی دلالت کرتی ہیں کہ کوئی شخص جس حالت میں فوت ہوگا، اسی حالت میں اٹھے گا، مثلاً شہید اور خود کشی کرنے والا وغیرہ۔ (۳) اس روایت میں سر کے ساتھ چہرہ ننگا رکھنے کا بھی حکم ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ احرام کی حالت میں چہرہ ننگا رکھنا مرد کے لیے ضروری ہے، مگر امام شافعی کا خیال ہے کہ چہرہ ننگا رکھنا صرف سر ننگا رکھنے کے لیے ہے ورنہ احرام میں مرد کے لیے چہرہ ننگا رکھنا ضروری نہیں۔ بہر صورت احتیاط یہی ہے کہ چہرہ بھی ننگا رکھا جائے۔ اہل ظاہر اس مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں مگر میت محرم کی صورت میں چہرہ ننگا رکھنے کے قائل ہیں۔