سنن النسائي - حدیث 2713

الْمَوَاقِيتِ الْكَرَاهِيَةُ فِي الثِّيَابِ الْمُصَبَّغَةِ لِلْمُحْرِمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ أَتَيْنَا جَابِرًا فَسَأَلْنَاهُ عَنْ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً فَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً وَقَدِمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الْيَمَنِ بِهَدْيٍ وَسَاقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ هَدْيًا وَإِذَا فَاطِمَةُ قَدْ لَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ قَالَ فَانْطَلَقْتُ مُحَرِّشًا أَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَاطِمَةَ لَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ وَقَالَتْ أَمَرَنِي بِهِ أَبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَدَقَتْ صَدَقَتْ صَدَقَتْ أَنَا أَمَرْتُهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2713

کتاب: مواقیت کا بیان محرم کے لیے رنگ دار کپڑے پہننے کی ممانعت حضرت محمد (باقر) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے نبیﷺ کے حج (حجۃ الوداع) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ’’اگر مجھے اس بات کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا اور حج کے بجائے عمرے کا احرام باندھتا، لہٰذا جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دلے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی یمن سے قربانی کے جانور لے کر آئے تھے اور رسول اللہﷺ مدینہ منورہ سے قربانی کے جانور لائے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سرمہ لگا رکھا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھڑکانے (غصہ دلانے) کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مسئلہ پوچھنے گیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ نے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ان کاموں کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس نے سچ کہا۔ وہ سچ کہتی ہے، وہ سچی ہے، میں نے ہی اسے حکم دیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا۔‘‘ روایت کا ابتدائی حصہ حذف ہے۔ دراصل حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج ہی کا احرام باندھا تھا، مگر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ حج کے دنوں میں عمرہ بھی کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ آپ نے اعلان عام فرمایا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حج کے لیے بعد میں نیا احرام باندھیں۔ قربانی کے جانور ساتھ لانے والے چونکہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عمرہ تو کریں مگر حج کا احرام قائم رکھیں اور قربانی ذبح ہونے کے بعد حلال ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرہ کر کے حلال نہ ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے لیے جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، عمرے کے بعد حلال ہونا بڑا شاق تھا کیونکہ ان کی اصل نیت حج کی تھی۔ حج کے دن بھی قریب تھے۔ صرف تین دن کا فاصلہ تھا، لہٰذا انھیں درمیان میں حلال ہونا پسند نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ (۲) ’’جو بعد میں پتا چلا۔‘‘ یعنی عمرے کا حکم۔ (۳) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، لہٰذا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئیں۔ انھوں نے رنگ دار کپڑے پہنے اور سرمہ لگایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چونکہ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ حلال نہ ہوئے، اس لیے انھیں اشکال پیدا ہوا۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے درست ہوتے یا سرمہ لگانا جائز ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض کیوں کرتے؟ معلوم ہوا احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے یا سرمہ جائز نہیں، البتہ رنگ دار کپڑوں سے مراد وہ ہیں جنھیں بعد میں رنگا گیا ہو یا زعفران وغیرہ سے رنگے ہوں، ورنہ پہلے سے رنگ والے کپڑے عورت احرام میں استعمال کر سکتی ہے۔ ان کپڑوں کی کراہت کی وجہ زینت یا خوشبو ہے۔ (۵) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دینی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کلمہ ’’لَوْ‘‘ کہنا جائز ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں جو ممانعت وارد ہے وہ دنیاوی امور کے متعلق ہے۔ (۶) اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کی خوب نگرانی کرنی چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی خلاف شرع کام کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ (۷) اگر ممکن ہو تو قربانی کے جانور دور دراز علاقے سے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ مشروع ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۱) ’’اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا۔‘‘ روایت کا ابتدائی حصہ حذف ہے۔ دراصل حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج ہی کا احرام باندھا تھا، مگر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ حج کے دنوں میں عمرہ بھی کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ آپ نے اعلان عام فرمایا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حج کے لیے بعد میں نیا احرام باندھیں۔ قربانی کے جانور ساتھ لانے والے چونکہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عمرہ تو کریں مگر حج کا احرام قائم رکھیں اور قربانی ذبح ہونے کے بعد حلال ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرہ کر کے حلال نہ ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے لیے جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، عمرے کے بعد حلال ہونا بڑا شاق تھا کیونکہ ان کی اصل نیت حج کی تھی۔ حج کے دن بھی قریب تھے۔ صرف تین دن کا فاصلہ تھا، لہٰذا انھیں درمیان میں حلال ہونا پسند نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ (۲) ’’جو بعد میں پتا چلا۔‘‘ یعنی عمرے کا حکم۔ (۳) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، لہٰذا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئیں۔ انھوں نے رنگ دار کپڑے پہنے اور سرمہ لگایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چونکہ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ حلال نہ ہوئے، اس لیے انھیں اشکال پیدا ہوا۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے درست ہوتے یا سرمہ لگانا جائز ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض کیوں کرتے؟ معلوم ہوا احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے یا سرمہ جائز نہیں، البتہ رنگ دار کپڑوں سے مراد وہ ہیں جنھیں بعد میں رنگا گیا ہو یا زعفران وغیرہ سے رنگے ہوں، ورنہ پہلے سے رنگ والے کپڑے عورت احرام میں استعمال کر سکتی ہے۔ ان کپڑوں کی کراہت کی وجہ زینت یا خوشبو ہے۔ (۵) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دینی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کلمہ ’’لَوْ‘‘ کہنا جائز ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں جو ممانعت وارد ہے وہ دنیاوی امور کے متعلق ہے۔ (۶) اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کی خوب نگرانی کرنی چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی خلاف شرع کام کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ (۷) اگر ممکن ہو تو قربانی کے جانور دور دراز علاقے سے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ مشروع ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔