سنن النسائي - حدیث 2710

الْمَوَاقِيتِ فِي الْخَلُوقِ لِلْمُحْرِمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَاءٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَعَلَيْهِ مُقَطَّعَاتٌ وَهُوَ مُتَضَمِّخٌ بِخَلُوقٍ فَقَالَ أَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَمَا أَصْنَعُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ قَالَ كُنْتُ أَتَّقِي هَذَا وَأَغْسِلُهُ فَقَالَ مَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ فَاصْنَعْهُ فِي عُمْرَتِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2710

کتاب: مواقیت کا بیان محرم کے لیے خلوق لگانا؟ حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا۔ اس نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا لیکن اس نے سلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور خلوق (خوشبو) لگا رکھی تھی۔ اس نے آپ سے کہا: میں نے عمرے کا احرام باندھا ہے تو میں کیا کروں؟ نبیﷺ نے فرمایا: ’’تو حج میں کیا کرتا تھا؟‘‘ اس نے کہا: میں اس (سلے ہوئے کپڑے) سے بچتا تھا اور اس (خوشبو) کو دھو دیا کرتا تھا۔ اپ نے فرمایا: ’’جو تو حج میں کرتا تھا، وہی عمرے میں کر۔‘‘
تشریح : (۱) اس شخص کا خیال تھا کہ یہ پابندیاں صرف حج میں ہیں، عمرے میں نہیں کیونکہ یہ اس کے مقابلے میں کم مرتبے والا ہے۔ آپ نے فرمایا: کہ دونوں کے احرام میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں میں پابندیاں ایک جیسی ہیں۔ احرام، حج اور عمرہ وغیرہ شریعت اسلامیہ سے پہلے بھی عرب میں رائج تھے۔ اور یہ پابندیاں بھی معروف تھیں اور یہ سابقہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات تھیں۔ (۲) ’’خلوق‘‘ یہ بھی ایک رنگ دار خوشبو ہے زعفران کی طرح لہٰذا اس کا حکم ہر لحاظ سے زعفران کی طرح ہے، یعنی مردوں کے لیے ہر حال میں منع ہے اور عورتوں کے لیے صرف احرام میں ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ جائز ہے۔ (۳) ’’وہی عمرے میں کر۔‘‘ یہاں حج اور عمرے کے افعال مراد نہیں بلکہ صرف احرام مراد ہے، یعنی دونوں کا احرام ایک جیسا ہوتا ہے۔ (۴) چونکہ وہ شخص شرعی احکام سے ناواقف تھا، اس لیے اسے معذور تصور فرمایا۔ اب بھی کسی سے لا علمی کی بنا پر اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو ان شاء اللہ معذور ہوگا۔ واللہ اعلم (۱) اس شخص کا خیال تھا کہ یہ پابندیاں صرف حج میں ہیں، عمرے میں نہیں کیونکہ یہ اس کے مقابلے میں کم مرتبے والا ہے۔ آپ نے فرمایا: کہ دونوں کے احرام میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں میں پابندیاں ایک جیسی ہیں۔ احرام، حج اور عمرہ وغیرہ شریعت اسلامیہ سے پہلے بھی عرب میں رائج تھے۔ اور یہ پابندیاں بھی معروف تھیں اور یہ سابقہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات تھیں۔ (۲) ’’خلوق‘‘ یہ بھی ایک رنگ دار خوشبو ہے زعفران کی طرح لہٰذا اس کا حکم ہر لحاظ سے زعفران کی طرح ہے، یعنی مردوں کے لیے ہر حال میں منع ہے اور عورتوں کے لیے صرف احرام میں ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ جائز ہے۔ (۳) ’’وہی عمرے میں کر۔‘‘ یہاں حج اور عمرے کے افعال مراد نہیں بلکہ صرف احرام مراد ہے، یعنی دونوں کا احرام ایک جیسا ہوتا ہے۔ (۴) چونکہ وہ شخص شرعی احکام سے ناواقف تھا، اس لیے اسے معذور تصور فرمایا۔ اب بھی کسی سے لا علمی کی بنا پر اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو ان شاء اللہ معذور ہوگا۔ واللہ اعلم