سنن النسائي - حدیث 270

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب مُمَاسَّةِ الْجُنُبِ وَمُجَالَسَتِهِ صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ بَكْرٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ فِي طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ جُنُبٌ فَانْسَلَّ عَنْهُ فَاغْتَسَلَ فَفَقَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءَ قَالَ أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ لَقِيتَنِي وَأَنَا جُنُبٌ فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ حَتَّى أَغْتَسِلَ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْجُسُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 270

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ جنبی کو ہاتھ لگانا اور اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جائز ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں مدینہ منورہ کے ایک راستے میں ملے۔ جب کہ وہ (ابوہریرہ) جنبی تھے، اس لیے وہ آپ سے کھسک گئے اور غسل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہ پایا۔ پھر جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا: ’’ابوہریرہ! تم کہاں تھےڈ‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب آپ مجھے ملے تھے تو میں جنبی تھا۔ میں نے اس حال میں آپ کے ساتھ بیٹھنا پسند نہ کیا یہاں تک کہ غسل کر لوں۔ آپ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! تحقیق مومن پلید نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح : (۱) [سبحان اللہ] کلمہ تعجب ہے۔ گویا آپ نے ان کے طرز عمل اور تخیل پر تعجب کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے جنابت کے فوراً بعد غسل کرنا ضروری نہیں ورنہ آپ ان کے کھسکنے پر تعجب نہ فرماتے بلکہ ان کی تحسین فرماتے۔ (۲) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حد درجے تک آپ کی عزت و احترام کرتے تھے۔ (۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی صحابی کو گم پاتے تو فوراً اس کے متعلق دریافت فرماتے تھے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملی کہ قوم کے بڑے کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے ماتحتوں میں سے کسی کو گم پائے تو فوری طور پر اس کے متعلق دریافت کرے اکور اگر وہ کسی پزمائشی میں مبتلا ہے تو اس کے دکھ درد کا شریک بنے۔ اور اس کی رہنمائی کرے۔ (۱) [سبحان اللہ] کلمہ تعجب ہے۔ گویا آپ نے ان کے طرز عمل اور تخیل پر تعجب کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے جنابت کے فوراً بعد غسل کرنا ضروری نہیں ورنہ آپ ان کے کھسکنے پر تعجب نہ فرماتے بلکہ ان کی تحسین فرماتے۔ (۲) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حد درجے تک آپ کی عزت و احترام کرتے تھے۔ (۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی صحابی کو گم پاتے تو فوراً اس کے متعلق دریافت فرماتے تھے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملی کہ قوم کے بڑے کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے ماتحتوں میں سے کسی کو گم پائے تو فوری طور پر اس کے متعلق دریافت کرے اکور اگر وہ کسی پزمائشی میں مبتلا ہے تو اس کے دکھ درد کا شریک بنے۔ اور اس کی رہنمائی کرے۔