سنن النسائي - حدیث 2683

الْمَوَاقِيتِ التَّلْبِيدُ عِنْدَ الْإِحْرَام صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أُخْتِهِ حَفْصَةَ قَالَتْ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوا وَلَمْ تَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِكَ قَالَ إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي وَقَلَّدْتُ هَدْيِي فَلَا أُحِلُّ حَتَّى أُحِلَّ مِنْ الْحَجِّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2683

کتاب: مواقیت کا بیان احرام باندھتے وقت بالوں کو گوند(وغیرہ)سے چپکانا ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال ہوگئے ہیں مگر آپ عمرہ کر کے حلال نہیں ہوئے؟ آپ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے سر کے بالوں کو گوند سے چپکایا ہے اور قربانی کے جانور کو قلادہ (ہار) پہنا دیا ہے، اس لیے میں حلال نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ حج سے حلال ہو جاؤں۔‘‘
تشریح : (۱) بال بڑے ہوں اور احرام لمبے عرصے کے لیے ہو تو بالوں کو مٹی اور جوؤں سے، نیز زیادہ پراگندگی سے بچانے کے لیے کچھ گوند وغیرہ لگا لینا جس سے بالوں کو تہہ جم جائے تلبید کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ عمرے اور حج کا اخٹھا احرام باندھا تھا جو دو ہفتے تک جاری رہنا تھا، اس لیے آپ نے تلبید فرمائی۔ اکثر صحابہ کا احرام صرف عمرے کا تھا، لہٰذا انھیں تلبید کی ضرورت نہ تھی۔ (۲) تلبید، واجب ہے نہ منع، محرم کی مرضی پر موقوف ہے۔ (۳) سوال کے جواب میں آپ نے تلبید اور قربانی کا ذکر فرمایا۔ تلبید تو نشانی تھی احرام کے طویل ہونے کی اور قربانی کا جانور اگر ساتھ ہو تو محرم حلال نہیں ہو سکتا، خواہ عمرے کا احرام ہی ہو جب تک وہ جانور ذبح نہیں ہو جاتا۔ قلادہ انھی جانوروں کو ڈالا جاتا تھا جو ساتھ لے جائے جاتے تھے۔ موقع پر خریدے گئے جانوروں کو قلادے کی ضرورت نہیں تھی۔ (۴) حج سے حلال ہونے سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے۔ اس سے احرام ختم ہو جاتا ہے، اگرچہ حج کے بعض افعال بعد میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ (۵) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے۔ (۱) بال بڑے ہوں اور احرام لمبے عرصے کے لیے ہو تو بالوں کو مٹی اور جوؤں سے، نیز زیادہ پراگندگی سے بچانے کے لیے کچھ گوند وغیرہ لگا لینا جس سے بالوں کو تہہ جم جائے تلبید کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ عمرے اور حج کا اخٹھا احرام باندھا تھا جو دو ہفتے تک جاری رہنا تھا، اس لیے آپ نے تلبید فرمائی۔ اکثر صحابہ کا احرام صرف عمرے کا تھا، لہٰذا انھیں تلبید کی ضرورت نہ تھی۔ (۲) تلبید، واجب ہے نہ منع، محرم کی مرضی پر موقوف ہے۔ (۳) سوال کے جواب میں آپ نے تلبید اور قربانی کا ذکر فرمایا۔ تلبید تو نشانی تھی احرام کے طویل ہونے کی اور قربانی کا جانور اگر ساتھ ہو تو محرم حلال نہیں ہو سکتا، خواہ عمرے کا احرام ہی ہو جب تک وہ جانور ذبح نہیں ہو جاتا۔ قلادہ انھی جانوروں کو ڈالا جاتا تھا جو ساتھ لے جائے جاتے تھے۔ موقع پر خریدے گئے جانوروں کو قلادے کی ضرورت نہیں تھی۔ (۴) حج سے حلال ہونے سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے۔ اس سے احرام ختم ہو جاتا ہے، اگرچہ حج کے بعض افعال بعد میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ (۵) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے۔