الْمَوَاقِيتِ النَّهْيُ عَنْ أَنْ تَنْتَقِبَ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ
کتاب: مواقیت کا بیان
محرم عورت کے لیے نقاب باندھنے کی ممانعت
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! احرام کی حالت میں آپ ہمیں کن کپڑوں کے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قمیص، شلوار، پگڑی، برانڈی (اوور کوٹ اور ٹوپی دار کرتا) اور موزے نہ پہنو مگر یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن سکتا ہے۔ اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس کو زعفران یا ورس لگی ہو، نیز محرم عورت نہ نقان باندھے اور نہ دستانے پہنے۔‘‘
تشریح :
(۱) ’’نقاب نہ باندھے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ ننگا رکھے، بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کا نقاب تھا جو اس زمانے میں رائج تھا، اس سے فوری طور پر چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا تھا، اس لیے مخصوص نقاب سے روک دیا گیا تاکہ مردوں کے سامنے آتے ہی فوراً پردہ کرنا آسان رہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مرد سامنے آتے تو ہم فوراً چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اب اس نقاب کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں اب مردوں کا ہجوم ہر وقت اور ہر جگہ رہتا ہے، اس لیے اب حجاب کا اہتمام ہر وقت ہی کرنا چاہیے، سوائے ان جگہوں کے جہاں مرد نہ ہوں۔ بعض لوگ عورت کے لیے چہرہ ننگا رکھنے پر سنن دارقطنی کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ’’عورت کا احرام اس کے چہرے میں اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔‘‘ اسے سنن دارقطنی میں مرفوعاً بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، یعنی موقوف روایت ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطنی: ۲/ ۵۵۴۔ بتحقیق الشیخ عادل والشیخ علی محمد، دارالمعرفۃ، بیروت) اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ بشرطِ صحت اس موقوف روایت کا بھی وہی مفہوم لیا جائے گا جس کی وضاحت ہم نے کی ہے۔ (۲) ’’دستانے نہ پہنے‘‘ مقصد یہ ہے کہ وہ ہاتھ ننگے رکھے تاکہ دوران حج و عمرہ میں کوئی تنگی نہ ہو۔ معلوم ہوا اس دور میں خواتین پردے کے لیے دستانے بھی استعمال کرتی تھیں۔ مشہور تو یہی ہے کہ دستانے ہاتھوں کو سردی، گرمی یا پانی سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں مگر بعض اہل لغت نے اس سے زیور بھی مراد لیا ہے جس کے ساتھ ہاتھ چھپ جاتے ہیں۔ خیر! احرام میں ہاتھ ننگے رہنے چاہئیں۔
(۱) ’’نقاب نہ باندھے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ ننگا رکھے، بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کا نقاب تھا جو اس زمانے میں رائج تھا، اس سے فوری طور پر چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا تھا، اس لیے مخصوص نقاب سے روک دیا گیا تاکہ مردوں کے سامنے آتے ہی فوراً پردہ کرنا آسان رہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مرد سامنے آتے تو ہم فوراً چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اب اس نقاب کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں اب مردوں کا ہجوم ہر وقت اور ہر جگہ رہتا ہے، اس لیے اب حجاب کا اہتمام ہر وقت ہی کرنا چاہیے، سوائے ان جگہوں کے جہاں مرد نہ ہوں۔ بعض لوگ عورت کے لیے چہرہ ننگا رکھنے پر سنن دارقطنی کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ’’عورت کا احرام اس کے چہرے میں اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔‘‘ اسے سنن دارقطنی میں مرفوعاً بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، یعنی موقوف روایت ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطنی: ۲/ ۵۵۴۔ بتحقیق الشیخ عادل والشیخ علی محمد، دارالمعرفۃ، بیروت) اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ بشرطِ صحت اس موقوف روایت کا بھی وہی مفہوم لیا جائے گا جس کی وضاحت ہم نے کی ہے۔ (۲) ’’دستانے نہ پہنے‘‘ مقصد یہ ہے کہ وہ ہاتھ ننگے رکھے تاکہ دوران حج و عمرہ میں کوئی تنگی نہ ہو۔ معلوم ہوا اس دور میں خواتین پردے کے لیے دستانے بھی استعمال کرتی تھیں۔ مشہور تو یہی ہے کہ دستانے ہاتھوں کو سردی، گرمی یا پانی سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں مگر بعض اہل لغت نے اس سے زیور بھی مراد لیا ہے جس کے ساتھ ہاتھ چھپ جاتے ہیں۔ خیر! احرام میں ہاتھ ننگے رہنے چاہئیں۔