سنن النسائي - حدیث 2668

الْمَوَاقِيتِ النَّهْيُ عَنْ الثِّيَابِ الْمَصْبُوغَةِ بِالْوَرْسِ وَالزَّعْفَرَانِ فِي الْإِحْرَامِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنْ الثِّيَابِ قَالَ لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ وَرْسٌ وَلَا زَعْفَرَانٌ وَلَا خُفَّيْنِ إِلَّا لِمَنْ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2668

کتاب: مواقیت کا بیان احرام میں ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے کی ممانعت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’۔وہ قمیص، برانڈی (ٹوپی دار کرتا)، شلوار، پگڑی، ایسا کپڑا جسے ورس یا زعفران لگا ہو اور موزے نہیں پہن سکتا مگر یہ کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوںتو وہ موزے پہن لے مگر انھیں ٹخنوں سے نیچے کاٹ (کر جوتوں کی طرح بنا) لے۔‘‘
تشریح : (۱) محرم کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ سر نہ ڈھانپے اور سلا ہوا کپڑا نہ پہنے، خوشبو والا کپڑا بھی نہ پہنے۔ باقی کپڑے پہن سکتا ہے۔ (۲) ’’برانڈی‘‘ وہ کوٹ یا کرتا جس کے ساتھ ٹوپی بھی ہوتی ہے۔ (۳) ’’موزے‘‘ یعنی چمڑے کے موزے۔ صحیح قول کے مطابق موزوں کا پہننا جائز ہے، خواہ وہ کٹے ہوئے نہ بھی ہوں۔ دراصل احرام کی حالت میں موزے پہننے کی بابت دو قسم کی روایات آتی ہیں: ایک یہ کہ انھیں کاٹ کر پہنا جائے اور دوسری یہ کہ موزوں کو ان کی اصل حالت میں پہنا جائے، البتہ جس حدیث میں موزے کاٹنے کا حکم ہے وہ ابتدائے احرام کا ہے جبکہ دوسرا حکم عرفے کے دن کا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ واللہ اعلم! دیکھیے: (صحیح البخاری، جزاء الصید، حدیث: ۱۸۴۱، وصحیح مسلم، الحجد، حدیث: ۱۱۷۸) (۴) سوال تھا کیا پہنے؟ جواب ملا، فلاں فلاں چیز نہ پہنے۔ کیونکہ یہ پہنی جانے والی چیزیں قلیل ہیں اور پہنی جانے والی کثیر، لہٰذا اختصار کی خاطر ایسے جواب دیا۔ یہ بھی بلاغت کی ایک بہترین صورت ہے کہ جواب کے ساتھ ساتھ سوال کی تصحیح کر دی جائے۔ (۵) حدیث میں مذکور لباس کی ممانعت اور دو سادہ ان سلے کپڑے پہننے میں حکمت یہ ہے کہ آدمی خشوع وتذلل کی صفت سے متصف اور رفاہیت سے دور رہے تاکہ اسے یاد دہانی رہے کہ وہ محرم ہے، اس لیے وہ کثرت اذکار اور عبادت کی طرف متوجہ رہے اور ممنوعات کے ارتکاب سے باز رہے، نیز اس سے مساوات اور اتحاد کا درس ملے۔ (۱) محرم کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ سر نہ ڈھانپے اور سلا ہوا کپڑا نہ پہنے، خوشبو والا کپڑا بھی نہ پہنے۔ باقی کپڑے پہن سکتا ہے۔ (۲) ’’برانڈی‘‘ وہ کوٹ یا کرتا جس کے ساتھ ٹوپی بھی ہوتی ہے۔ (۳) ’’موزے‘‘ یعنی چمڑے کے موزے۔ صحیح قول کے مطابق موزوں کا پہننا جائز ہے، خواہ وہ کٹے ہوئے نہ بھی ہوں۔ دراصل احرام کی حالت میں موزے پہننے کی بابت دو قسم کی روایات آتی ہیں: ایک یہ کہ انھیں کاٹ کر پہنا جائے اور دوسری یہ کہ موزوں کو ان کی اصل حالت میں پہنا جائے، البتہ جس حدیث میں موزے کاٹنے کا حکم ہے وہ ابتدائے احرام کا ہے جبکہ دوسرا حکم عرفے کے دن کا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ واللہ اعلم! دیکھیے: (صحیح البخاری، جزاء الصید، حدیث: ۱۸۴۱، وصحیح مسلم، الحجد، حدیث: ۱۱۷۸) (۴) سوال تھا کیا پہنے؟ جواب ملا، فلاں فلاں چیز نہ پہنے۔ کیونکہ یہ پہنی جانے والی چیزیں قلیل ہیں اور پہنی جانے والی کثیر، لہٰذا اختصار کی خاطر ایسے جواب دیا۔ یہ بھی بلاغت کی ایک بہترین صورت ہے کہ جواب کے ساتھ ساتھ سوال کی تصحیح کر دی جائے۔ (۵) حدیث میں مذکور لباس کی ممانعت اور دو سادہ ان سلے کپڑے پہننے میں حکمت یہ ہے کہ آدمی خشوع وتذلل کی صفت سے متصف اور رفاہیت سے دور رہے تاکہ اسے یاد دہانی رہے کہ وہ محرم ہے، اس لیے وہ کثرت اذکار اور عبادت کی طرف متوجہ رہے اور ممنوعات کے ارتکاب سے باز رہے، نیز اس سے مساوات اور اتحاد کا درس ملے۔