سنن النسائي - حدیث 2666

الْمَوَاقِيتِ غُسْلُ الْمُحْرِمِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّهُمَا اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ وَقَالَ الْمِسْوَرُ لَا يَغْسِلُ رَأْسَهُ فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ قَرْنَيْ الْبِئْرِ وَهُوَ مُسْتَتِرٌ بِثَوْبٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَقُلْتُ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَسْأَلُكَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا رَأْسُهُ ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ وَقَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2666

کتاب: مواقیت کا بیان محرم کا غسل کرنا حضرت عبداللہ بن حنین سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا ابواء کے مقام پر اختلاف ہوگیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اپنا سر دھو سکتا ہے۔ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ سر نہیں دھو سکتا۔ مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان سے اس بارے میں پوچھوں۔ (میں آیا) تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے پایا۔ انھوں نے ایک کپڑے کے ساتھ پردہ کیا ہوا تھا۔ میں نے انھیں سلام کیا اور کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ حضرت ابو ایوب نے کپڑے پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا حتی کہ ان کا سر نظر آنے لگا، پھر اس شخص سے کہنے لگے: جو ان کے سر پر پانی بہا رہا تھا: پانی بہاؤ، پھر انھوں نے اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھ سے حرکت دی، اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔ اور فرمایا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔
تشریح : (۱) محرم احتلام کے علاوہ بھی حسب منشا غسل کر سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے، نیز سر کو اچھی طرح دھویا اور ملا بھی جا سکتا ہے۔ بعض لوگ بال ٹوٹنے یا اترنے کے خدشے سے غسل سے روکتے ہیں اور اگر نہاتے ہوئے کوئی بال ٹوٹ جائے تو دم لازم کرتے ہیں۔ یہ محض احتیاط ہے جو دلیل سے عاری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں سینگی بھی لگوائی ہے، اس کی وجہ سے یقینا بال بھی کاٹنے پڑتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر دم دینا ثابت نہیں، اگر دیا ہوتا تو دیگر مناسک کی طرح جم غفیر میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور نقل کرتا۔ بنا بریں عدم نقل عدم ثبوت کی دلیل ہے، تاہم اگر بلا وجہ قصداً کچھ بال کاٹے یا سارا سر ہی مونڈھ لے تو پھر دم دینا حدیث سے ثابت ہے۔ (۲) ’’سلام کیا۔‘‘ وہ ننگے نہیں نہا رہے تھے بلکہ تہبند باندھا ہوا تھا۔ پردے والا کپڑا اس کے علاوہ تھا۔ (۳) اختلاف کے وقت نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اپنا قیاس اور اجتہاد چھوڑ دینا چاہیے۔ (۴) خبر واحد حجت ہے، صحابہ کرامؓ میں اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا عام تھا۔ (۱) محرم احتلام کے علاوہ بھی حسب منشا غسل کر سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے، نیز سر کو اچھی طرح دھویا اور ملا بھی جا سکتا ہے۔ بعض لوگ بال ٹوٹنے یا اترنے کے خدشے سے غسل سے روکتے ہیں اور اگر نہاتے ہوئے کوئی بال ٹوٹ جائے تو دم لازم کرتے ہیں۔ یہ محض احتیاط ہے جو دلیل سے عاری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں سینگی بھی لگوائی ہے، اس کی وجہ سے یقینا بال بھی کاٹنے پڑتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر دم دینا ثابت نہیں، اگر دیا ہوتا تو دیگر مناسک کی طرح جم غفیر میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور نقل کرتا۔ بنا بریں عدم نقل عدم ثبوت کی دلیل ہے، تاہم اگر بلا وجہ قصداً کچھ بال کاٹے یا سارا سر ہی مونڈھ لے تو پھر دم دینا حدیث سے ثابت ہے۔ (۲) ’’سلام کیا۔‘‘ وہ ننگے نہیں نہا رہے تھے بلکہ تہبند باندھا ہوا تھا۔ پردے والا کپڑا اس کے علاوہ تھا۔ (۳) اختلاف کے وقت نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اپنا قیاس اور اجتہاد چھوڑ دینا چاہیے۔ (۴) خبر واحد حجت ہے، صحابہ کرامؓ میں اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا عام تھا۔