سنن النسائي - حدیث 266

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب حَجْبِ الْجُنُبِ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ ضعيف أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ أَتَيْتُ عَلِيًّا أَنَا وَرَجُلَانِ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنْ الْخَلَاءِ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ عَنْ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 266

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ جنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت حضرت عبداللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور دو آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس آئے تو انھوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے باہر تشریف لاتے تو قرآن مجید پڑھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گوشت کھاتے اور آپ کو قرپن مجید پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔
تشریح : (۱) قرآن مجید پڑھنے کے لیے وضو ضروری نہیں ہے، البتہ قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے لیے اکثر اہل علم نے وضو ضروری قرار دیا ہے، اگرچہ اس کی دلیل اتنی قوی نہیں۔ بنا بریں اگر ہاتھوں پر نجاست وغیرہ نہ لگی ہو تو بلاوضو بھی قرپن کو پکڑا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) جمہور اہل علم کے نزدیک جنابت کی حالت میں قرآن مجید پڑھنا منع ہے اور یہ قرآن مجید کے احترام کے طور پر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن مجید کو عام ذکر کی طرح جنابت میں بھی جائز سمجھا ہے۔ امام ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حزم رحمہم اللہ وغیرہ کا موقف بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک ممانعت کی تمام روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ دلائل کی رو سے اگرچہ انہی اجلاء علماء کی رائے قوی اور راجح معلوم ہوتی ہے لیکن یہ جواز علی الاطلاق مناسب نہیں لگتا بلکہ اس میں قدرے ناپسندیدگی اور کراہت کا پہلو محسوس ہوتا ہے جیسا کہ یہ بات نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرمان سے ظاہر ہوتی ہے جبکہ آپ پیشاب سے فارغ ہوئے، پھر تیمم کیا اور اس کے بعد سلام کا جواب دیا، اور فرمایا: [انی کرھت ان اذکر اللہ الا علی طھارۃ] (صیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۱۳) ’’میں نے بلاطہارت اللہ کا ذکر کرنا ناپسند کیا تھا۔‘‘ گویا سلام کا جواب بھی آپ نے تیمم کے بعد دیا ہے اور اسے ذکر اللہ قرار دیا۔ قرآن بھی ذکر ہے جو کہ اس ذکر سے بہتر ہے، اس لیے افضل یہی ہے کہ غسل کے بعد ہی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ واللہ أعلم۔ (۱) قرآن مجید پڑھنے کے لیے وضو ضروری نہیں ہے، البتہ قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے لیے اکثر اہل علم نے وضو ضروری قرار دیا ہے، اگرچہ اس کی دلیل اتنی قوی نہیں۔ بنا بریں اگر ہاتھوں پر نجاست وغیرہ نہ لگی ہو تو بلاوضو بھی قرپن کو پکڑا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) جمہور اہل علم کے نزدیک جنابت کی حالت میں قرآن مجید پڑھنا منع ہے اور یہ قرآن مجید کے احترام کے طور پر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن مجید کو عام ذکر کی طرح جنابت میں بھی جائز سمجھا ہے۔ امام ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حزم رحمہم اللہ وغیرہ کا موقف بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک ممانعت کی تمام روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ دلائل کی رو سے اگرچہ انہی اجلاء علماء کی رائے قوی اور راجح معلوم ہوتی ہے لیکن یہ جواز علی الاطلاق مناسب نہیں لگتا بلکہ اس میں قدرے ناپسندیدگی اور کراہت کا پہلو محسوس ہوتا ہے جیسا کہ یہ بات نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرمان سے ظاہر ہوتی ہے جبکہ آپ پیشاب سے فارغ ہوئے، پھر تیمم کیا اور اس کے بعد سلام کا جواب دیا، اور فرمایا: [انی کرھت ان اذکر اللہ الا علی طھارۃ] (صیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۱۳) ’’میں نے بلاطہارت اللہ کا ذکر کرنا ناپسند کیا تھا۔‘‘ گویا سلام کا جواب بھی آپ نے تیمم کے بعد دیا ہے اور اسے ذکر اللہ قرار دیا۔ قرآن بھی ذکر ہے جو کہ اس ذکر سے بہتر ہے، اس لیے افضل یہی ہے کہ غسل کے بعد ہی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ واللہ أعلم۔