سنن النسائي - حدیث 2658

الْمَوَاقِيتِ مَنْ كَانَ أَهْلُهُ دُونَ الْمِيقَاتِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ قَالَ هُنَّ لَهُمْ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِمَّنْ سِوَاهُنَّ لِمَنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ مِنْ حَيْثُ بَدَا حَتَّى يَبْلُغَ ذَلِكَ أَهْلَ مَكَّةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2658

کتاب: مواقیت کا بیان جو لوگ ان مواقیت کے کے اندر رہتے ہوں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لیے جحفہ، نجد والوں کے لیے قرن اور یمن والوں کے لیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ مواقیت ان (علاقوں کے لوگوں) کے لیے ہیں۔ اور ان لوگوں کے لیے بھی جو دوسرے علاقوں سے ہوں لیکن ان مواقیت سے گزریں بشرطیکہ وہ حج و عمرہ کے ارادے سے آئیں۔ اور جو لوگ ان مواقیت کے اندر رہتے ہوں تو وہ ان جگہوں سے احرام باندھیں جہاں سے چلیں، حتیٰ کہ یہ حکم مکے والوں پر بھی لاگو ہوگا (کہ وہ مکے ہی سے حج کا احرام باندھیں)۔‘‘
تشریح : (۱) ’’حج و عمرے کے ارادے سے آئیں‘‘ یہی بات صحیح ہے۔ احناف کا خیال ہے کہ جو شخص بھی مکہ جائے، خواہ کسی اور کام سے جائے، اس پر میقات سے احرام لازم ہے جیسے کہ تحیۃ المسجد ہے۔ لیکن الفاظ حدیث سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی، نیز مسجد میں آنے والے ہر شخص کے لیے تحیۃ المسجد ضروری نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو وہاں بیٹھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ یہی بات حج وعمرہ کے ارادے سے آنے والوں کے لیے ہے، اس لیے ہر ہر فرد احرام کا مکلف نہیں۔ (۲) ’’جہاں سے چلیں‘‘ یعنی اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں۔ احناف کا خیال ہے کہ میقات کے اندر رہنے والے لوگ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے پہلے جہاں سے مرضی ہو، احرام باندھیں لیکن احادیث کی رو سے اپنے گھر ہی سے احرام باندھنا چاہیے۔ (۳) ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مواقیت حج اور عمرہ دونوں کے لیے ہیں نہ کہ صرف حج کے لیے لہٰذا مکے والے عمرے کا احرام بھی اپنے گھر ہی سے باندھیں گے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک مکے والے یا جو فی الوقت مکہ میں ہوں‘ عمرے کا احرام حدود حرم سے باہر آکر حل سے باندھیں۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عمرے کا احرام تنعیم (حرم کی قریب ترین حد مدینہ منورہ کی طرف) سے باندھنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ وہ مکے میں تھیں۔ (صحیح البخاری، العمرۃ، حدیث: ۷۱۸۴، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۱۱) ممکن ہے مکے سے بھی جائز ہو مگر حدود حرم سے افضل ہو۔ واللہ اعلم (۱) ’’حج و عمرے کے ارادے سے آئیں‘‘ یہی بات صحیح ہے۔ احناف کا خیال ہے کہ جو شخص بھی مکہ جائے، خواہ کسی اور کام سے جائے، اس پر میقات سے احرام لازم ہے جیسے کہ تحیۃ المسجد ہے۔ لیکن الفاظ حدیث سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی، نیز مسجد میں آنے والے ہر شخص کے لیے تحیۃ المسجد ضروری نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو وہاں بیٹھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ یہی بات حج وعمرہ کے ارادے سے آنے والوں کے لیے ہے، اس لیے ہر ہر فرد احرام کا مکلف نہیں۔ (۲) ’’جہاں سے چلیں‘‘ یعنی اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں۔ احناف کا خیال ہے کہ میقات کے اندر رہنے والے لوگ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے پہلے جہاں سے مرضی ہو، احرام باندھیں لیکن احادیث کی رو سے اپنے گھر ہی سے احرام باندھنا چاہیے۔ (۳) ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مواقیت حج اور عمرہ دونوں کے لیے ہیں نہ کہ صرف حج کے لیے لہٰذا مکے والے عمرے کا احرام بھی اپنے گھر ہی سے باندھیں گے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک مکے والے یا جو فی الوقت مکہ میں ہوں‘ عمرے کا احرام حدود حرم سے باہر آکر حل سے باندھیں۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عمرے کا احرام تنعیم (حرم کی قریب ترین حد مدینہ منورہ کی طرف) سے باندھنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ وہ مکے میں تھیں۔ (صحیح البخاری، العمرۃ، حدیث: ۷۱۸۴، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۱۱) ممکن ہے مکے سے بھی جائز ہو مگر حدود حرم سے افضل ہو۔ واللہ اعلم