سنن النسائي - حدیث 2652

الْمَوَاقِيتِ الْمَوَاقِيتُ مِيقَاتُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَأَهْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2652

کتاب: مواقیت کا بیان مدینے والوں کا میقات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مدینے والے ذوالحلیفہ سے شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے احرام باندھیں۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اور یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔‘‘
تشریح : (۱) ’’یہ بات پہنچی ہے۔‘‘ گویا یہ ٹکڑا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ لیکن دیگر روایات میں یہ ٹکڑآ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا شک وشبہ صحیح وثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البکاری، الحج، حدیث: ۱۵۲۴، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۱۸۱) (۲) ذوالحلیفہ مدینے سے چھ میل اور مکہ مکرمہ سے تقریباً ۴۵۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اسے وادی عقیق بھی کہتے ہیں۔ آج کل اسے بئر علی یا ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ میقات تمام مواقیت میں سے مکہ سے زیادہ دور ہے۔ (۲۳) حج کے ارادے سے جانے والوں کے لیے ان جگہوں سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں۔ (۴) یہ حدیث اعلام نبوت میں سے ہے۔ آپ نے جو میقات مقرر کیے، وہ اور ان کے آس پاس کے علاقوں والے ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے یہ میقات مقرر فرمائے کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ علاقے مسلمان ہوں گے اور حج کے لیے بیت اللہ کی طرف رخت سفر باندھیں گے اور انھیں احرام باندھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم (۵) چاروں طرف میقات مقرر کرنا امت کی سہولت کے لیے ہے۔ اگر ایک ہی میقات مقرر کیا جاتا تو یہ بہت زیادہ مشقت کا باعث ہوتا۔ (۱) ’’یہ بات پہنچی ہے۔‘‘ گویا یہ ٹکڑا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ لیکن دیگر روایات میں یہ ٹکڑآ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا شک وشبہ صحیح وثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البکاری، الحج، حدیث: ۱۵۲۴، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۱۸۱) (۲) ذوالحلیفہ مدینے سے چھ میل اور مکہ مکرمہ سے تقریباً ۴۵۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اسے وادی عقیق بھی کہتے ہیں۔ آج کل اسے بئر علی یا ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ میقات تمام مواقیت میں سے مکہ سے زیادہ دور ہے۔ (۲۳) حج کے ارادے سے جانے والوں کے لیے ان جگہوں سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں۔ (۴) یہ حدیث اعلام نبوت میں سے ہے۔ آپ نے جو میقات مقرر کیے، وہ اور ان کے آس پاس کے علاقوں والے ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے یہ میقات مقرر فرمائے کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ علاقے مسلمان ہوں گے اور حج کے لیے بیت اللہ کی طرف رخت سفر باندھیں گے اور انھیں احرام باندھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم (۵) چاروں طرف میقات مقرر کرنا امت کی سہولت کے لیے ہے۔ اگر ایک ہی میقات مقرر کیا جاتا تو یہ بہت زیادہ مشقت کا باعث ہوتا۔