كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ الْوَقْتُ الَّذِي خَرَجَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ لِلْحَجِّ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقِعْدَةِ لَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ أَنْ يَحِلَّ
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
نبئ اکرم ﷺ حج کے لیے مدینہ منورہ سے کب چلے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے) چلے تو ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے ۔ ہم (عموماً) حج ہی کی نیت رکھتے تھے مگر جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو آپ نے حکم فرمایا: ’’جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں تو احرام ختم کر دیں (حلال ہو جائیں۔
تشریح :
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے ہفتے کے دن نکلے جبکہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور آپ نے وقوف عرفہ جمعے کے دن فرمایا۔ مختلف تاریخوں کا ذکر ہے لیکن یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ واللہ اعلم (۲) ’’حج کی نیت رکھتے تھے۔‘‘ اکثر صحابہ کی نیت یہی تھی مگر بعض صحابہ حتی کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھیں۔ (۳) ’’احرام ختم کر دیں۔‘‘ یعنی عمرہ کر کے حلال ہو جائیں، خواہ احرام حج ہی کا ہو۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا اب بھی ایسے جائز ہے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیں؟ بظاہر یہ اب بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اخذ ہوتا ہے۔ اس موقف کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس موقع پر بعض صحابہ کرامe نے دریافت کیا کہ آیا یہ اس سال کے ساتھ ہی خاص ہے یا یہ اجازت ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اسے قیامت تک کے لیے جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا: [دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِی الْحَجِ ّ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ، لَابَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ] ’’تا قیامت عمرہ حج میں داخل ہوگیا، نہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، نہیں بلکہ یہ اجازت ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (حجۃ النبی للالبانی، ص: ۱۵) لیکن جمہو اہل علم اب اس کے جواز کے قائل نہیں۔ ان کے بقول یہ حکم صرف اس سال کے لیے تھا کیونکہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کی اجازت تازہ تازہ ملی تھی۔ پہلے لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے وضاحت کے لیے آپ نے یہ حکم دیا۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ توجیہ محل نظر ہے۔ (۷) ’’جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں۔‘‘ یعنی مکمل عمرہ کر لیں۔ طواف کے بعد سعی بھی کر چکیں۔ یہ مسئلہ متفقہ ہے۔
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے ہفتے کے دن نکلے جبکہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور آپ نے وقوف عرفہ جمعے کے دن فرمایا۔ مختلف تاریخوں کا ذکر ہے لیکن یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ واللہ اعلم (۲) ’’حج کی نیت رکھتے تھے۔‘‘ اکثر صحابہ کی نیت یہی تھی مگر بعض صحابہ حتی کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھیں۔ (۳) ’’احرام ختم کر دیں۔‘‘ یعنی عمرہ کر کے حلال ہو جائیں، خواہ احرام حج ہی کا ہو۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا اب بھی ایسے جائز ہے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیں؟ بظاہر یہ اب بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اخذ ہوتا ہے۔ اس موقف کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس موقع پر بعض صحابہ کرامe نے دریافت کیا کہ آیا یہ اس سال کے ساتھ ہی خاص ہے یا یہ اجازت ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اسے قیامت تک کے لیے جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا: [دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِی الْحَجِ ّ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ، لَابَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ] ’’تا قیامت عمرہ حج میں داخل ہوگیا، نہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، نہیں بلکہ یہ اجازت ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (حجۃ النبی للالبانی، ص: ۱۵) لیکن جمہو اہل علم اب اس کے جواز کے قائل نہیں۔ ان کے بقول یہ حکم صرف اس سال کے لیے تھا کیونکہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کی اجازت تازہ تازہ ملی تھی۔ پہلے لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے وضاحت کے لیے آپ نے یہ حکم دیا۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ توجیہ محل نظر ہے۔ (۷) ’’جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں۔‘‘ یعنی مکمل عمرہ کر لیں۔ طواف کے بعد سعی بھی کر چکیں۔ یہ مسئلہ متفقہ ہے۔