سنن النسائي - حدیث 2646

كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ الْحَجُّ بِالصَّغِيرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً رَفَعَتْ صَبِيًّا لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِهَذَا حَجٌّ قَالَ نَعَمْ وَلَكِ أَجْرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2646

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل بچے کو حج کروانا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنا بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہاتھوں پر بلند کیا اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اور ثواب تجھے ملے گا۔‘‘
تشریح : (۱) کم سن اور نابالغ پر فرائض کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن اگر وہ کسی فرض کی ادائیگی کرے یا اسے ادائیگی کروا دی جائے تو وہ صحیح اور باعث اجر ہوگی، مثلاً: والدین کا شیر خوار بچے کو حج کروانا، تو ایسی صورت میں حج کا احرام اور اس کی پابندیاں والدین کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کا خیال رکھیں، اسی لیے انھیں بچے کے نیک کاموں کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح سات سال کے بچے کا نمازروزہ ادا کرنا، لیکن اسے شرائط کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا، مثلاً: نماز کے لیے طہارت اور وضو وغیرہ کا اہتمام کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بچے کو ثواب ملے گا ہی نہیں، بلکہ بچے کو بھی ثواب ملے گا اور اولیاء چونکہ اسے محنت مشقت سے وہ کام کراتے ہیں، اس لیے انھیں اس مشقت کے باعث ثواب ملے گا۔ (۲) اس بات پر قریباً اجماع ہے کہ بلوغت سے پہلے کا حج فرض حج کی جگہ کفایت نہیں کرے گا بلکہ وہ بلوغت کے بعد ادا کرنا ہوگا۔ راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے فتوے اس کی مضبوط دلیل ہیں۔ (۳) اس حدیث میں مذکور جس بچے کی بابت سوال کیا گیا ہے وہ بچہ تو بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس عورت نے ہاتھ پر اٹھا لیا تھا۔ بہرحال والدہ کے لیے ثواب تو ہے ہی کیونکہ وہ اسے اٹھائے پھرتی ہے۔ (۱) کم سن اور نابالغ پر فرائض کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن اگر وہ کسی فرض کی ادائیگی کرے یا اسے ادائیگی کروا دی جائے تو وہ صحیح اور باعث اجر ہوگی، مثلاً: والدین کا شیر خوار بچے کو حج کروانا، تو ایسی صورت میں حج کا احرام اور اس کی پابندیاں والدین کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کا خیال رکھیں، اسی لیے انھیں بچے کے نیک کاموں کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح سات سال کے بچے کا نمازروزہ ادا کرنا، لیکن اسے شرائط کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا، مثلاً: نماز کے لیے طہارت اور وضو وغیرہ کا اہتمام کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بچے کو ثواب ملے گا ہی نہیں، بلکہ بچے کو بھی ثواب ملے گا اور اولیاء چونکہ اسے محنت مشقت سے وہ کام کراتے ہیں، اس لیے انھیں اس مشقت کے باعث ثواب ملے گا۔ (۲) اس بات پر قریباً اجماع ہے کہ بلوغت سے پہلے کا حج فرض حج کی جگہ کفایت نہیں کرے گا بلکہ وہ بلوغت کے بعد ادا کرنا ہوگا۔ راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے فتوے اس کی مضبوط دلیل ہیں۔ (۳) اس حدیث میں مذکور جس بچے کی بابت سوال کیا گیا ہے وہ بچہ تو بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس عورت نے ہاتھ پر اٹھا لیا تھا۔ بہرحال والدہ کے لیے ثواب تو ہے ہی کیونکہ وہ اسے اٹھائے پھرتی ہے۔