سنن النسائي - حدیث 2639

كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ تَشْبِيهُ قَضَاءِ الْحَجِّ بِقَضَاءِ الدَّيْنِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ خَثْعَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الرُّكُوبَ وَأَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ فَهَلْ يُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ آنْتَ أَكْبَرُ وَلَدِهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ أَكُنْتَ تَقْضِيهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَحُجَّ عَنْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2639

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل ادائیگی حج‘ ادائیگی قرض کے مشابہ ہے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا: میرے والد انتہائی بوڑھے ہیں۔ وہ سوار نہیں ہو سکتے۔ اور اللہ کے فریضہ حج نے انھیں آ لیا ہے۔ کیا ان کی طرف سے حج کرنا ان کو کفایت کر جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو اس کا سب سے بڑا بیٹا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو بتا اگر تیرے والد کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تو اس کی طرف سے حج بھی کر۔‘‘
تشریح : (۱) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کی اصل صحیح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی روایت معناً صحیح ہے، تاہم راجح اور درست بات یہ ہے کہ [اَنْتَ اَکْبَرُ وَلَدِہِ] کے علاوہ باقی روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۲۶/ ۴۷،۴۸) (۲) حج بدل کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بڑا بیٹا ہی کرے بلکہ کوئی بیٹا بھی بلکہ بھائی حتیٰ کہ عام قرابت دار بھی حج بدل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں آنے والی دیگر روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ (دیگر مباحث کے لیے دیکھیے، روایات: ۲۶۳۳، ۲۲۳۶ (۱) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کی اصل صحیح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی روایت معناً صحیح ہے، تاہم راجح اور درست بات یہ ہے کہ [اَنْتَ اَکْبَرُ وَلَدِہِ] کے علاوہ باقی روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۲۶/ ۴۷،۴۸) (۲) حج بدل کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بڑا بیٹا ہی کرے بلکہ کوئی بیٹا بھی بلکہ بھائی حتیٰ کہ عام قرابت دار بھی حج بدل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں آنے والی دیگر روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ (دیگر مباحث کے لیے دیکھیے، روایات: ۲۶۳۳، ۲۲۳۶