سنن النسائي - حدیث 2636

كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ الْحَجُّ عَنْ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَسْتَمْسِكُ عَلَى الرَّحْلِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ سَأَلَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ جَمْعٍ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَمْسِكُ عَلَى الرَّحْلِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2636

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل زندہ شخص سواری پر نہ بیٹھ سکتا ہو تو اس کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو خثعم (قبیلے) کی ایک عورت نے مزدلفہ کی صبح رسول اللہﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر فرض کیے گئے حج نے میرے والد کو اس حال میں پایا ہے کہ وہ انتہائی بوڑھے ہیں، سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘
تشریح : (۱) مزدلفہ کی صبح، یعنی جس صبح حاجی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوتے ہیں۔ گویا ۱۰ ذی الحجہ۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ (۲) ’’سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ وجوب حج کے لیے جسمانی قوت شرط نہیں بلکہ مالی استطاعت (یعنی آنے جانے اور کھانے پینے کا خرچ) کافی ہے ورنہ آپ فرما دیتے کہ تیرے باپ پر حج واجب ہی نہیں۔ مالی استطاعت ہونے کی صورت میں خود حج کرے۔ اگر جسمانی قوت نہ ہو تو کسی سے کروائے۔ (۳) ’’فرمایا: ہاں۔‘‘ یعنی اگلے سال یا اس سے بعد کیونکہ یہ حج تو وہ اپنی طرف سے کر رہی تھی بلکہ کر چکی تھی کیونکہ یہ وقوف عرفہ سے بعد کی بات ہے اور وقوف عرفہ ہی حاصل حج ہے۔ (۴) جمہور اہل علم کے نزدیک حج بدل (جو کسی کی طرف سے کیا جائے) صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنا حج پہلے کر چکا ہو۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ نے صراحتاً ایک شخص کو اپنا حج کرنے سے پہلے شبرمہ نامی شخص کی طرف سے حج کرنے سے روک دیا تھا۔ (۵) مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اگرچہ مرد، عورت کے احکام میں کچھ فرق ہے مگر وہ فرق احرام وغیرہ میں ہے۔ افعال حج ایک جیسے ہی ہیں۔ (۶) عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔ تعلیم و تعلم، استفادہ وافتا اور اس قسم کی دیگر ضروریات کے مواقع پر اجنبی عورت کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں لیکن عورت کو چاہیے اجنبی سے بات کرتے وقت اس طرح نرم لہجہ اختیار نہ کرے جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ (۷) والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا چاہیے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اگر ان کی وفات کے بعد ان پر کوئی حج یا قرض وغیرہ کا فریضہ ہو جسے وہ کسی عذر کی بنا پر ادا نہ کر سکے ہوں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کی طرف سے وہ فریضہ انجام دیں۔ واللہ اعلم (۱) مزدلفہ کی صبح، یعنی جس صبح حاجی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوتے ہیں۔ گویا ۱۰ ذی الحجہ۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ (۲) ’’سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ وجوب حج کے لیے جسمانی قوت شرط نہیں بلکہ مالی استطاعت (یعنی آنے جانے اور کھانے پینے کا خرچ) کافی ہے ورنہ آپ فرما دیتے کہ تیرے باپ پر حج واجب ہی نہیں۔ مالی استطاعت ہونے کی صورت میں خود حج کرے۔ اگر جسمانی قوت نہ ہو تو کسی سے کروائے۔ (۳) ’’فرمایا: ہاں۔‘‘ یعنی اگلے سال یا اس سے بعد کیونکہ یہ حج تو وہ اپنی طرف سے کر رہی تھی بلکہ کر چکی تھی کیونکہ یہ وقوف عرفہ سے بعد کی بات ہے اور وقوف عرفہ ہی حاصل حج ہے۔ (۴) جمہور اہل علم کے نزدیک حج بدل (جو کسی کی طرف سے کیا جائے) صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنا حج پہلے کر چکا ہو۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ نے صراحتاً ایک شخص کو اپنا حج کرنے سے پہلے شبرمہ نامی شخص کی طرف سے حج کرنے سے روک دیا تھا۔ (۵) مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اگرچہ مرد، عورت کے احکام میں کچھ فرق ہے مگر وہ فرق احرام وغیرہ میں ہے۔ افعال حج ایک جیسے ہی ہیں۔ (۶) عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔ تعلیم و تعلم، استفادہ وافتا اور اس قسم کی دیگر ضروریات کے مواقع پر اجنبی عورت کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں لیکن عورت کو چاہیے اجنبی سے بات کرتے وقت اس طرح نرم لہجہ اختیار نہ کرے جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ (۷) والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا چاہیے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اگر ان کی وفات کے بعد ان پر کوئی حج یا قرض وغیرہ کا فریضہ ہو جسے وہ کسی عذر کی بنا پر ادا نہ کر سکے ہوں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کی طرف سے وہ فریضہ انجام دیں۔ واللہ اعلم