كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ فَضْلُ الْحَجِّ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ حَبِيبٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ قَالَتْ أَخْبَرَتْنِي أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَخْرُجُ فَنُجَاهِدَ مَعَكَ فَإِنِّي لَا أَرَى عَمَلًا فِي الْقُرْآنِ أَفْضَلَ مِنْ الْجِهَادِ قَالَ لَا وَلَكُنَّ أَحْسَنُ الْجِهَادِ وَأَجْمَلُهُ حَجُّ الْبَيْتِ حَجٌّ مَبْرُورٌ
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
حج کی فضیلت
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! کیا ہم عورتیں بھی آپ کے ساتھ جہاد کے لیے نہ جایا کریں؟ کیونکہ میں تو قرآن مجید میں کوئی عمل جہاد سے افضل نہیں پاتی۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں تم عورتوں کے لیے افضل اور خوب صورت ترین جہاد بیت اللہ کا حج مبرور ہے۔‘‘
تشریح :
جہاد کی مشقت عورت کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے وہ جہاد نہیں کر سکتیں۔ ویسے بھی خطرہ ہے کہ عورتیں دشمن کے ہاتھوں قید ہوگئیں تو وہ ان کی بے حرمتی کرے گا جو مسلمان مردوں کے لیے ذلت و رسوائی کی بات ہوگی۔ ابتدائی طور پر عورتیں زخمیوں کو پانی پلانے، میدان جنگ سے منتقل کرنے اور ابتدائی مرہم پٹی کرنے کے لیے لشکر کے ساتھ چلی جایا کرتی تھیں مگر جب مرد زیادہ ہوگئے تو مندرجہ بالا مقاصد کے لیے بھی عام طور پر عورتوں کا میدان جنگ میں جانا بند ہوگیا۔ بلکہ رسول اللہﷺ نے بھی ان کے جانے کو پسند نہیں فرمایا۔
جہاد کی مشقت عورت کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے وہ جہاد نہیں کر سکتیں۔ ویسے بھی خطرہ ہے کہ عورتیں دشمن کے ہاتھوں قید ہوگئیں تو وہ ان کی بے حرمتی کرے گا جو مسلمان مردوں کے لیے ذلت و رسوائی کی بات ہوگی۔ ابتدائی طور پر عورتیں زخمیوں کو پانی پلانے، میدان جنگ سے منتقل کرنے اور ابتدائی مرہم پٹی کرنے کے لیے لشکر کے ساتھ چلی جایا کرتی تھیں مگر جب مرد زیادہ ہوگئے تو مندرجہ بالا مقاصد کے لیے بھی عام طور پر عورتوں کا میدان جنگ میں جانا بند ہوگیا۔ بلکہ رسول اللہﷺ نے بھی ان کے جانے کو پسند نہیں فرمایا۔