سنن النسائي - حدیث 2622

كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ وُجُوبُ الْعُمْرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي رَزِينٍ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ قَالَ فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2622

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل عمرے کے واجب ہونے کا بیان حضرت عمرو بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو رزین رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ وہ حج و عمرہ بلکہ سفر تک کی طاقت نہیں رکھتے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔‘‘
تشریح : (۱) عمرے کا وجوب مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین، مثلاً: امام شافعی اور امام احمدL حج کی طرح عمرے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں حج اور عمرے کا اکٹھا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں بھی وہ اکٹھے مذکور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ} (البقرۃ: ۱۹۶) ’’حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل کرو۔‘‘ لہٰذا دونوں فرض ہیں۔ مگر احناف اور مالکی حضرات عمرے کو نفل سمجھتے ہیں کیونکہ نبیﷺ نے ارکان اسلام بتاتے وقت حج کا ذکر فرمایا ہے عمرے کا نہیں۔ لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ دیگر بہت سے ایسے فرائض وواجبات ہیں جن کی حیثیت ارکان کی نہیں اور نہ وہ اس حدیث کے تحت ذکر ہی ہوئے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ واجب ہی ہیں، لہٰذا اس سے ان کی عدم فرضیت یا عدم وجوب لازم نہیں آتا، نیز دونوں کے اعمال ومناسک کا بھی خاصا فرق ہے۔ جب فرق ہے تو ایک کے اس حدیث میں ذکر نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ (۲) جو شخص مالی طاقت رکھتا ہو مگر جسمانی طور پر معذور ہو تو وہ کسی کو اپنی جگہ حج کے لیے بھیجے۔ اسی طرح جس شخص پر حج فرض ہو مگر ادائیگی کے بغیر فوت ہوگیا ہو تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء حج کریں یا کسی کو بھیجیں۔ (۱) عمرے کا وجوب مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین، مثلاً: امام شافعی اور امام احمدL حج کی طرح عمرے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں حج اور عمرے کا اکٹھا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں بھی وہ اکٹھے مذکور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ} (البقرۃ: ۱۹۶) ’’حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل کرو۔‘‘ لہٰذا دونوں فرض ہیں۔ مگر احناف اور مالکی حضرات عمرے کو نفل سمجھتے ہیں کیونکہ نبیﷺ نے ارکان اسلام بتاتے وقت حج کا ذکر فرمایا ہے عمرے کا نہیں۔ لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ دیگر بہت سے ایسے فرائض وواجبات ہیں جن کی حیثیت ارکان کی نہیں اور نہ وہ اس حدیث کے تحت ذکر ہی ہوئے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ واجب ہی ہیں، لہٰذا اس سے ان کی عدم فرضیت یا عدم وجوب لازم نہیں آتا، نیز دونوں کے اعمال ومناسک کا بھی خاصا فرق ہے۔ جب فرق ہے تو ایک کے اس حدیث میں ذکر نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ (۲) جو شخص مالی طاقت رکھتا ہو مگر جسمانی طور پر معذور ہو تو وہ کسی کو اپنی جگہ حج کے لیے بھیجے۔ اسی طرح جس شخص پر حج فرض ہو مگر ادائیگی کے بغیر فوت ہوگیا ہو تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء حج کریں یا کسی کو بھیجیں۔