كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ بَاب وُجُوبِ الْحَجِّ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ وَاسْمُهُ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَيْكُمْ الْحَجَّ فَقَالَ رَجُلٌ فِي كُلِّ عَامٍ فَسَكَتَ عَنْهُ حَتَّى أَعَادَهُ ثَلَاثًا فَقَالَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِهَا ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالشَّيْءِ فَخُذُوا بِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
حج کی فرضیت کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔‘‘ ایک آدمی کہنے لگا: ہر سال؟ آپ خاموش رہے، حتیٰ کہ اس نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور اگر ہر سال واجب ہو جاتا تو تم اسے ادا نہ کر سکتے۔ جب تک میں تمھیں چھوڑے رہوں، تم بھی مجھے چھوڑے رہا کرو۔ تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے اور زیادہ سوالات کرنے کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کی پابندی کرو اور جب تمھیں کسی چیز سے روک دوں تو اسے چھوڑ دو۔‘‘
تشریح :
(۱) حج کی فرضیت تو اجماعی اور قطعی مسئلہ ہے، اختلاف ہے یہ کہ کب فرض ہوا۔ مشہور قول ۵ یا ۶ ہجری کا ہے مگر محقق بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۹ ہجری میں فرض ہوا، ورنہ آپ ۶ہجری میں عمرے کی بجائے حج کو جاتے۔ ۸ہجری میں بھی فتح مکہ کے بعد آپ عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئے، حالانکہ حج کے دن قریب تھے۔ (۲) ’’ایک آدمی۔‘‘ یہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔ (۳) ’’واجب ہو جاتا۔‘‘ گویا حج کا حکم مطلق اترا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یا ہر سال کی صراحت نہیں تھی۔ اس کا فیصلہ مصلحت مسلمین پر موقوف تھا۔ اگر آپ ’’ہر سال‘‘ میں مصلحت محسوس فرماتے تو ہر سال فرض ہو جاتا مگر یہ بات مصلحت کے خلاف تھی، اس لیے آپ نے اس شخص کی تائید نہ کی۔ (۴) بعض مسائل میں شارع علیہ السلام نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار فرمائی ہے تاکہ مسلمانوں کو سہولت رہے۔ ایسے مسائل میں سوال کے ذریعے سے تنگی پیدا کرنا بری بات ہے۔ اسی طرح شریعت کی عطا کردہ وسعت کوختم کر دینا بھی بے جا تشدد ہے۔ جن مسائل میں شریعت نے معاملہ کھلا چھوڑا ہے، اسے کھلا ہی رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پابندیاں نہ لگائی جائیں، مثلاً: لباس، حجامت، بود وباش اور دیگر عادات۔ اسی طرح نفلی عبادات میں شریعت کے صریح احکام ہی کو کافی سمجھا جائے اور لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ کسی قوم کے رسوم و رواج جب تک صراحتاً شریعت کے خلاف نہ ہوں، ان پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ان کا ثبوت ہی شریعت سے تلاش کیا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت عبادات میں ہے نہ کہ عادات میں۔ عادات میں پابندی کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔ (۵) ’’طاقت کے مطابق‘‘ معلوم ہوا کہ ایک آدمی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق ایک مامور بہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مکمل طور پر بجا نہیں لا پاتا، تو جتنے کام سے وہ عاجز آگیا ہو، وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ یہ بات نیکی کے کاموں کی ہے جنھیں کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، البتہ جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان میں استطاعت کی قید نہیں، ان سے ہر صورت میں مکمل طور پر بچنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم (۶) امر ہر جگہ تکرار کا تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہر جگہ عدم تکرار کا تقاضا کرتا ہے بلکہ موقع محل، سیاق، قرائن یا دلائل سے تعین کیا جائے گا۔
(۱) حج کی فرضیت تو اجماعی اور قطعی مسئلہ ہے، اختلاف ہے یہ کہ کب فرض ہوا۔ مشہور قول ۵ یا ۶ ہجری کا ہے مگر محقق بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۹ ہجری میں فرض ہوا، ورنہ آپ ۶ہجری میں عمرے کی بجائے حج کو جاتے۔ ۸ہجری میں بھی فتح مکہ کے بعد آپ عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئے، حالانکہ حج کے دن قریب تھے۔ (۲) ’’ایک آدمی۔‘‘ یہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔ (۳) ’’واجب ہو جاتا۔‘‘ گویا حج کا حکم مطلق اترا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یا ہر سال کی صراحت نہیں تھی۔ اس کا فیصلہ مصلحت مسلمین پر موقوف تھا۔ اگر آپ ’’ہر سال‘‘ میں مصلحت محسوس فرماتے تو ہر سال فرض ہو جاتا مگر یہ بات مصلحت کے خلاف تھی، اس لیے آپ نے اس شخص کی تائید نہ کی۔ (۴) بعض مسائل میں شارع علیہ السلام نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار فرمائی ہے تاکہ مسلمانوں کو سہولت رہے۔ ایسے مسائل میں سوال کے ذریعے سے تنگی پیدا کرنا بری بات ہے۔ اسی طرح شریعت کی عطا کردہ وسعت کوختم کر دینا بھی بے جا تشدد ہے۔ جن مسائل میں شریعت نے معاملہ کھلا چھوڑا ہے، اسے کھلا ہی رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پابندیاں نہ لگائی جائیں، مثلاً: لباس، حجامت، بود وباش اور دیگر عادات۔ اسی طرح نفلی عبادات میں شریعت کے صریح احکام ہی کو کافی سمجھا جائے اور لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ کسی قوم کے رسوم و رواج جب تک صراحتاً شریعت کے خلاف نہ ہوں، ان پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ان کا ثبوت ہی شریعت سے تلاش کیا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت عبادات میں ہے نہ کہ عادات میں۔ عادات میں پابندی کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔ (۵) ’’طاقت کے مطابق‘‘ معلوم ہوا کہ ایک آدمی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق ایک مامور بہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مکمل طور پر بجا نہیں لا پاتا، تو جتنے کام سے وہ عاجز آگیا ہو، وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ یہ بات نیکی کے کاموں کی ہے جنھیں کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، البتہ جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان میں استطاعت کی قید نہیں، ان سے ہر صورت میں مکمل طور پر بچنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم (۶) امر ہر جگہ تکرار کا تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہر جگہ عدم تکرار کا تقاضا کرتا ہے بلکہ موقع محل، سیاق، قرائن یا دلائل سے تعین کیا جائے گا۔