سنن النسائي - حدیث 262

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب فِي الْجُنُبِ إِذَا لَمْ يَتَوَضَّأْ ضعيف أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ ح وَأَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 262

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ جنبی اگر وضو نہ کرے تو؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس گھر میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی ہو۔‘‘
تشریح : (۱) وضو کرنے سے جنابت ختم تو نہیں ہوتی مگر ایک قسم کی طہارت حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ خصوصاً جنبی کے اعضائے وضو تو پاک ہو ہی جاتے ہیں، لہٰذا جنبی کے لیے آئندہ نماز تک غسل میں رعایت ہے، البتہ وضو کرلے اور یہ افضل ہے جس طرح کہ دیگر احادیث میں آتا ہے۔ اگر شرم گاہ وغیرہ دھو کر بلاوضو بھی سو جائے تو کوئی حرج نہیں اور یہ بھی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو جایا کرتے تھے جبکہ آپ جنبی ہوتے اور پانی کو چھوتے تک نہیں تھے۔ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے انتہائی محققانہ دقیق علمی اسلوب میں تفصیلاً اس حدیث کی حجیت کا اثبات کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (شرح الترمذي از أحمد شاکر: ۲۰۲/۱)، نیز آخر میں انھوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بااختیار ہے۔ وضو کر کے سونا افضل اور بلاوضو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سو جانا بیان جواز کی خاطر تھا۔ مذکورہ حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے اور یہی بات حق ہے۔ واللہ أعلم۔ اس موقف کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرماتے ہیں: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں (بلاوضو) سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کرلے۔‘‘ گویا وضو کرنا اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ دیکھیے: (صحیح ابن خزیمۃ، حدیث: ۲۲۱، و موارد الظمآن، حدیث: ۲۳۲) مزید دیکھیے: (صحیح موارد الظمآن للألباني، حدیث: ۱۹۵) (۲) فرشتوں سے رحمت کے فرشتے مراد ہیں نہ کہ مطلق فرشتے کیونکہ محافظ فرشتے یا کاتب فرشتے بھی اس حالت میں انسان کے پاس آ جاتے ہیں جنابت کے باوجود انسان کے پاس رہتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ ولاجنب، کے اضافے کے بغیر باقی حدیث صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: ۳۲۲۵، و صحیح مسلم، اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۰۶، و ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۳۰) لہٰذا جنبی کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، درست نہیں کیونکہ یہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اگرچہ ہمارے فاضل محقق نے پور ی روایت کو قابل حجت سمجھا ہے، تاہم بشرط صحت جنبی سے مراد وہ جنبی ہوگا جو بلاضرورت غسل میں تاخیر کرتا ہے ورنہ نماز کے وقت تک غسل مؤخر کرنے والا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس میں رخصت ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے پاس جاتے اور غسل آخر میں فرماتے۔ (۱) وضو کرنے سے جنابت ختم تو نہیں ہوتی مگر ایک قسم کی طہارت حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ خصوصاً جنبی کے اعضائے وضو تو پاک ہو ہی جاتے ہیں، لہٰذا جنبی کے لیے آئندہ نماز تک غسل میں رعایت ہے، البتہ وضو کرلے اور یہ افضل ہے جس طرح کہ دیگر احادیث میں آتا ہے۔ اگر شرم گاہ وغیرہ دھو کر بلاوضو بھی سو جائے تو کوئی حرج نہیں اور یہ بھی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو جایا کرتے تھے جبکہ آپ جنبی ہوتے اور پانی کو چھوتے تک نہیں تھے۔ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے انتہائی محققانہ دقیق علمی اسلوب میں تفصیلاً اس حدیث کی حجیت کا اثبات کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (شرح الترمذي از أحمد شاکر: ۲۰۲/۱)، نیز آخر میں انھوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بااختیار ہے۔ وضو کر کے سونا افضل اور بلاوضو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سو جانا بیان جواز کی خاطر تھا۔ مذکورہ حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے اور یہی بات حق ہے۔ واللہ أعلم۔ اس موقف کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرماتے ہیں: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں (بلاوضو) سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کرلے۔‘‘ گویا وضو کرنا اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ دیکھیے: (صحیح ابن خزیمۃ، حدیث: ۲۲۱، و موارد الظمآن، حدیث: ۲۳۲) مزید دیکھیے: (صحیح موارد الظمآن للألباني، حدیث: ۱۹۵) (۲) فرشتوں سے رحمت کے فرشتے مراد ہیں نہ کہ مطلق فرشتے کیونکہ محافظ فرشتے یا کاتب فرشتے بھی اس حالت میں انسان کے پاس آ جاتے ہیں جنابت کے باوجود انسان کے پاس رہتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ ولاجنب، کے اضافے کے بغیر باقی حدیث صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: ۳۲۲۵، و صحیح مسلم، اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۰۶، و ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۳۰) لہٰذا جنبی کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، درست نہیں کیونکہ یہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اگرچہ ہمارے فاضل محقق نے پور ی روایت کو قابل حجت سمجھا ہے، تاہم بشرط صحت جنبی سے مراد وہ جنبی ہوگا جو بلاضرورت غسل میں تاخیر کرتا ہے ورنہ نماز کے وقت تک غسل مؤخر کرنے والا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس میں رخصت ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے پاس جاتے اور غسل آخر میں فرماتے۔